مفتی محمد حسین خلیل خیل
کرنسی کا سفر بارٹر سیل (اشیا کا باہم تبادلہ)کے دور سے شروع ہوا۔ آگے بڑھتے ہوئے سونے چاندی کے سکوں کی صورت اختیار کی۔اس کے بعد اس نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ جو کہ ’’حقیقی ثمن‘‘ (سونا چاندی) سے ’’عرفی ثمن‘‘ کی شکل میں تبدیل ہونا تھا۔ یہ عرفی ثمن کرنسی نوٹ (Currency Notes) کی شکل میں آج موجود ہے، لیکن کرنسی کا یہ سفر اس پر رکا نہیں بلکہ یہ سفر جاری ہے اور اپنے تسلسل کے ساتھ اب ’’ڈیجیٹل کرنسی‘‘ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
٭6 جنوری 2014 ء میں ایک بٹ کوئن کی قیمت 917ڈالر کے برابر تھی جب کہ اسی سال کے دسمبر میں اس کی قیمت 330 ڈالر تک گر چکی تھی اس سے اس کی غیر یقینی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ٭…ڈیجیٹل کرنسی کی 60 سے زائد قسمیں اب تک وجود میں آ چکی ہیں اور یہ سلسلہ مزید بھی جاری ہے
ڈیجیٹل کرنسی کی 60 سے زائد قسمیں اب تک وجود میں آ چکی ہیں اور یہ سلسلہ مزید بھی جاری ہے۔
Digital Currency کی ایجاد کا بنیادی مقصد کرنسی کو کسی خاص مرکز (حکومت یا اسٹیٹ) کے تابع اور زیر ملکیت ماننے کے بجائے کرنسی کو ایک آزاد اور خود مختارانہ حیثیت دینا ہے جو کسی خاص اتھارٹی کے بجائے براہ راست عوام کی ملکیت ہو، جس کے ذریعے کرنسی کو پوری دنیا میں یکساں شکل و حیثیت دے کر ایک ہی کرنسی کو عالمگیر حیثیت دی جائے۔ جس کا جسمانی وجود کسی خاص مادہ یا کسی حسی چیز کے بجائے کمپیوٹر سرور پر محفوظ ہو، جس کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا عمل انٹرنیٹ یا کسی ڈیجیٹل ڈیوائس کے ذریعے کیا جا سکے اور جیسے انٹرنیٹ کے ذریعے مطبوعات و نشریات عالمگیر ہو چکی ہیں، اسی طرح ایک ہی کرنسی کو بھی عالمگیریت کی خاصیت دی جا سکے اور یوں عالمگیریت کا وہ خواب جو ایک خاص طبقے کے ذہن میں عرصے سے گردش کر رہا ہے، معرض وجود پر آ سکے۔
ڈیجیٹل کرنسی کی ایک مشہور قسم بٹ کوئن (Bitcoin) بھی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی کو اصطلاحی الفاظ میں مجازی / غیر حسی (cryptocurrency/Virtual Currency) کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی کرنسیاں درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہیں:
1 اس قسم کی کرنسی کا کوئی حسی وجود کسی بھی شکل میں نہیں ہوتا، اس کا وجود چند پیچیدہ نمبرات (جس کو اندازے سے بنانا نا ممکن کے قریب ہوتا ہے) کی صورت میں کمپیوٹر کے سرور یا کسی ڈیجیٹل ڈیوائس پر ہوتا ہے۔
2 یہ کرنسی دنیا بھر میں یکساں وجود رکھتی ہے اور کسی بھی حکومت یا نگراں ادارے کے ماتحت نہیں ہوتی، بلکہ ایک مستقل آزاد (decentralized) حیثیت میں دستیاب ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ہر اس شخص کے ساتھ جو اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو، دنیا کے کسی بھی خطے میں بغیر کسی رکاوٹ اور کسی اتھارٹی کی منظوری کے بغیر مالی معاملات کیے جا سکتے ہیں۔
3 ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے معاملات طے پانے یا ان کے آپس میں تبادلے کے معاملات درمیانی واسطے اور قانونی رکاوٹوں کے نہ ہونے کی وجہ سے بہت جلدی اور کم دورانیے میں انجام پاتے ہیں، ایک ٹرانزکشن 10 سے 15 سیکنڈ میں مکمل ہو جاتی ہے۔
4 اس وقت 21 ملینز سے زیادہ کی تعداد میں یہ کرنسی جاری ہو چکی ہے اور ہزاروں لوگ اس کے ذریعے مالی معاملات کر رہے ہیں، حتی کہ کرنسیوں کے ریٹ بتانے والی بعض معروف ویب سائٹس عام کرنسیوں کی طرح اس کا ریٹ اور شرح تبادلہ بھی شایع کرتی ہیں۔
5 اسے کسی بھی برقی آلہ (electronic device) میں محفوظ کیا جا سکتا ہے اور سالوں تک وہ محفوظ رہتی ہے۔ یہ ضائع اس وقت ہوگی، جب وہ برقی آلہ گم یا خراب ہو جائے۔
6 ضائع ہونے کی صورت میں کوئی حکومت یا اتھارٹی اس کا عوض اور بدل ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے نہ ہی کسی اور شخص سے اس کو دوبارہ وصول کیا جا سکتا ہے۔
7 مخصوص ڈیجیٹل ڈیوائسز میں محفوظ ہونے کی وجہ سے اس کے ضائع ہونے کے احتمالات کافی زیادہ ہوتے ہیں اور اتنے ہی احتمالات ہوتے ہیں جیسا کہ کسی کمپیوٹر اور ڈیجیٹل آلے میں وائرس آجانے کی وجہ سے کسی خرابی کا امکان ہوتا ہے۔
8 چونکہ اس طرح کی کرنسی کے پیچھے کوئی ذمہ دار اتھارٹی نہیں ہوتی، لہذا اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے غیر متوقع (Unpredicted) امکانات بھی کافی زیادہ ہوتے ہیں، کیونکہ اس کی طلب و رسد کا درست اندازہ لگانا اور اس کے نتیجے میں کسی صحیح نتیجے پر پہنچنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں، چنانچہ 6 جنوری 2014 ء میں ایک بٹ کوئن کی قیمت 917ڈالر کے برابر تھی جب کہ اسی سال کے دسمبر میں اس کی قیمت 330 ڈالر تک گر چکی تھی، اس سے اس کی غیر یقینی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
9 اس قسم کی کرنسیوں کی چھوٹی اکائیاں بھی ہوتی ہیں، لیکن ایک کرنسی کی ہزاروں اکائیاں ہو سکتی ہیں، نیز بآسانی ہر وقت دستیاب بھی نہیں ہو سکتیں، جبکہ کسی بھی کرنسی کے لیے اس کی ریزگاری کا بآسانی فراہم ہونا ایک اہم اور ضروری خاصیت ہوتی ہے۔
10 اس قسم کی کرنسیوں کے پیچھے کوئی منظم ادارہ یا حکومت نہیں ہوتی، لہذا اس کی مارکیٹ میں طلب و رسد کا درست اور بر وقت اندازہ بھی مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی حقیقی مالیت بھی صحیح طریقے سے معلوم نہیں ہو سکتی۔
11 ان کرنسیوں کے لین دین کو اس لحاظ سے محفوظ کہا جا سکتا ہے کہ ہر کرنسی کی لین دین کے پیچھے ایک واضح ریکارڈ مرتب ہوتا ہے، جسے بلاک چین (block chain) کہا جاتا ہے۔ اس ریکارڈ کی رو سے یہ بات ممکن نہیں رہتی کہ ایک کرنسی کو دو مرتبہ استعمال کیا جائے۔
12 دنیا کے 50 فیصد کے قریب ممالک اس طرح کی کرنسی سے انجام دیے جانے والے معاملات کو قانونی حیثیت میں تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہی ممالک میں سے بہت سے ممالک کے مرکزی بینک اس طرح کی کرنسیوں سے متعلق مختلف قسم کی وارننگ بھی جاری کر چکے ہیں جس کی تفصیل انسائیکلوپیڈیا کے صفحات پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر درج ذیل باتیں کہی جا سکتی ہیں:
٭ ڈیجیٹل کرنسی کی اتنی حیثیت دنیا بھر میں تسلیم کی جا چکی ہے جس کے تحت اسے مال کے زمرے میں داخل سمجھ کر اس کے ذریعے انجام پانے والے معاملات کو درست تسلیم کیا جائے۔
٭ ڈیجیٹل کرنسی اس لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتی ہے کہ یہ کسی باضابطہ نگران ادارے یا حکومت کے ماتحت نہیں، جس کی وجہ سے کوئی خاص اتھارٹی دوسروں کا استحصال نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس میں مصنوعی طور پر طلب و رسد بڑھا کر اس کی قیمت مصنوعی طور پر بڑھائی یا گھٹائی جا سکتی ہے۔
٭ اس کرنسی میں مذکورہ بالاخدشات پائے جانے کی وجہ سے اس کو معیاری کرنسی قرار دینے میں کافی مفاسد اور خرابیاں رونما ہو سکتی ہیں، جن میں بلیک مارکیٹ میں استعمال کے علاوہ اس کی حفاظت کے حوالے سے اور اس کی طلب و رسد کا صحیح اندازہ لگانے کے حوالے سے بھی کافی خدشات ہر وقت موجود رہتے ہیں۔
٭ ان خدشات کے باوجود بہت سارے ممالک میں اس کو قانونی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے لہذا جس ملک میں قانوناً اس کے ذریعے معاملات طے کرنا ممنوع نہ ہو تو وہاں شرعی لحاظ سے بھی اس کے استعمال میں حرج نہیں ہونا چاہیےالبتہ جہاں یہ قانوناً ممنوع یا غیر تسلیم شدہ ہو جیسا کہ پاکستان میں ہے تو اس کے ذریعے معاملات انجام دینے سے احتراز کرنا ضروری ہو گا۔