قبلہ کی مخالف سمت میں ادا نمازوں کو لوٹانا

موضوع : فقہ العبادات
سوال:
میرے بھائی کے دوست دبئی میں کام کرتے ہیں گھر شفٹ کیا 2-3 ماہ ایپ سے قبلہ کی تعیین کرکے فجر اور مغرب عشاء کی نمازیں پڑھتے رہے۔ صبح جاتے شام کو آتے پڑوس میں کسی سے ملنا نہیں ہوتا، دفتر کے پاس مسجد میں نماز پڑھنے جاتے، اب پتہ چلا کہ قبلہ کی مخالف سمت میں نمازیں پڑھیں ہیں۔ کیا اب یہ نمازیں لوٹانی ہوں گی؟
تنقیح :انحراف کتنے ڈگری کا تھا؟
جواب : جی بالکل الٹی سمت میں یعنی 180 ڈگریز۔

الجواب باسم ملھم الصواب:
واضح رہے کہ جب قبلہ کا بتانے والا ہو تو اس سے پوچھ کر قبلہ کی تعیین کرنا ضروری ہے، اگر کوئی نہ ملے تو دوسرے ذرائع سے ورنہ پھر تحری(غور وفکر) کرکے قبلہ کی تعیین کا حکم ہے ۔ صورت مسئولہ میں چونکہ بتانے والے بہت تھے، لیکن آپ کے بھائی کے دوست نے کسی سے پوچھا نہیں، اس لیے نمازوں کو لوٹانا ضروری ہے۔

************************************
حوالہ جات :
1:الدر المختار وحاشية ابن عابدين:
“فأفاد أنه لايتحرى مع القدرة على أحد هذه، حتى لو كان بحضرته من يسأله فتحرى ولم يسأله إن أصاب القبلة جاز؛ لحصول المقصود وإلا فلا؛ لأن قبلة التحري مبنية على مجرد شهادة القلب من غير أمارة، وأهل البلد لهم علم بجهة القبلة المبنية على الأمارات الدالة عليها من النجوم وغيرها، فكان فوق الثابت بالتحري”.
(رد المحتار: 1/ 433)

2: البحر الرائق:
وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادة
( البحر الرائق :501/1)

واللہ تعالی اعلم بالصواب

1 نومبر 2022ء
6 ربیع الثانی 1444ھ

اپنا تبصرہ بھیجیں