ترکہ کی تقسیم

سوال کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ایک بندہ جس کی کل جائیداد ایک کروڑ ہے ۔
فوت ہونے والے کا نام
صہیب
زندہ رشتہ دار
بیوی: رجا
بیٹی: ہالہ
والد: حق نواز
والِدہ: پروین
بھائی: دو عدد زوہیب + حارث
جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی

تنقیح میت کے دادا، دادی اور نانی حیات ہیں یا نہیں؟
جواب تنقیح
صرف یہ ہی ورثا ہیں اور کوئی نہیں۔

الجواب باسم ملہم الصواب
صورتِ مسئولہ میں مرحوم نےجو ترکہ چھوڑا ہے
اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔
اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا ۔
اگر مرحوم نے بیوی کا حق مہر نہیں ادا کیا تھا اور بیوی نے برضاورغبت معاف بھی نہیں کیا تھا ،تو وہ بھی قرض کی طرح واجب الاداء ہے ،اسے بھی ادا کیا جائے گا۔
کفن دفن اور قرض ادا کرنے کے بعد میت نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی(تیسرے حصے) سے اس وصیت کو پورا کیا جائے گا۔
اس کے بعد ترکہ کے 24حصے کیے جائیں گے اور ان کی تقسیم یوں ہوگی :

↙️ بیوی کا حصہ ”3“ہو گا

↙️ بیٹی کے حصے 12 ہوں گے۔

↙️والدہ کے”4“ حصے ہوں گے

↙️والد کے” 5“ حصے ہوں گے

اور والد کی موجودگی میں بھائی محروم ہوں گے۔

ترکہ کی رقم ان کے درمیان یوں تقسیم ہوگی کہ

بیوی کے لیے 12,50,000ہوں گے

بیٹی کے لیے 50,00,000ہوں گے۔

والدہ کے لیے16,66,666.67 ہوں گے

والد کے لیے20,83,333.33 ہوں گے

===============

حوالہ جات:
1 ۔”يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ولأبويه لكلّ واحد منهما السدس مما ترك ۔
(سورۃ النساء: آیت 11)
ترجمہ :
”اللہ تمہاری اولاد کے حق میں تمہیں حکم دیتا ہے، ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، پھر اگر دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو ان کے لیے دو تہائی حصہ چھوڑے گئے مال میں سے ہے، اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے اور والدين میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہےاس کے چھوڑے ہوئے مال سے جبکہ اس کی اولاد ہو“

2:”فان كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم“(سورة نساء آية نمبر ۱۲)
ترجمہ:اور اگر تمھاری اولاد ہو تو ان بیویوں کے لیے آٹھواں حصہ ہے تمہارے ترکہ سے:

3۔”تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة: الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياهمن ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقيبين ورثته بالكتاب السنة وإجماع الأمة. فيبدأ بأصحاب الفرائض، وهم الذين لهم سهام مقدرة في كتاب الله تعالى“
(السراجي في الميراث : 8)

4:” وھم: کل من لیس لہ سہم مقدر، ویاخذ ما بقی من سہام ذوی الفروض، واذا انفرد اخذ جمیع المال۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا اجتمعت العصبات ، بعضھا عصبة بنفسھا، وبعضھا عصبة بغیرھا، وبعضھا عصبة مع غیرھا فالترجیح منھا بالقرب الی المیت لا بکونھا عصبة بنفسھا، حتی ان العصاذاپپمع غیرھا اذا کانت اقرب الی المیت من العصبة بنفسھا کانت العصبة مع غیرھا اولی“۔
(الفتاوی الھندیہ: 444/6 )۔

5۔” يبدء بتكفينه و تجهيزه بغير تبذير و لا تقتير ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله ثم تنفذ وصاياه من الثلث ما بقي بعد الدين ثم يقسم الباقي بين الورثته“۔
( السراجی: صفحہ 2-3)۔

6:واما لبنات الصلب فاحوال ثلٰث النصف للواحدۃ
(السراجی صفحہ8)

7:واما للام فاحوال ثلاث السدس مع الولد
(السراجی صفحہ۱۱)

8:اما الاب فلہ احوال ثلاث الفرض المطلق وھو السدس۔۔۔۔۔والفرض والتعصیب معا وذلک مع الابنۃ
(السراجی صفحہ6)
وألله خير الوارثين

تاریخ۔14ستمبر2024
10ربیع الاول.1446

اپنا تبصرہ بھیجیں