اردو یا انگلش اخبار میں قرانی آیات کا ترجمہ ہوتا ہے جو بعض دفعہ کسی کونے میں ہونے کی وجہ سے پتہ نہیں لگتا ۔ترجمہ والے صفحہ کے بارے کیا ہدایت ہے۔
الجواب باسم ملہم الصواب
عموما جو اخبارات و رسائل آیات یا احادیث شائع کرتے ہیں ان کی جگہ مقرر ہوتی ہے اور وہ مقررہ جگہ پر ہی چھاپے جاتے ہیں، لہذا ان اخبارات کے اس صفحے کو بے ادبی سے بچانا ضروری ہے، بہتر ہے کہ پڑھتے وقت ہی انکو الگ کردیا جائے اور پھر ایک جگہ جمع کر کے ان کی حفاظت کا بہترین حل یہ ہے کہ ان کو دفنا دیا جائے، وہ ممکن نہ ہو تو بہتے ہوئے پانی میں بہانے یاجلادینے کی بھی گنجائش ہے.
ہاں اگر اخبار وغیرہ کے کسی ایسے حصے میں یہ شائع ہوں جہاں پتا ہی نا چلے اور لا علمی میں ان کی حفاطت نا کی جاسکے تو اسپر امید ہے کہ پکڑ نا ہوگی کیونکہ احادیث کی روشنی میں وہ کام جو غلطی سے انجانے میں ہوجائے اور اس پر اصرار نا کیا جائے پکڑ نہیں ہے.
⚜️’’عن ابن عباس أن رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم قال: إن اللّٰه تجاوز عن أمتي الخطأ والنسیان وما استکرهوا علیه‘‘. (رواہ ابن ماجہ، والبیہقی، باب ثواب ہذہ الامۃ، مشکوۃ، ص:۵۸۴،ط:قدیمی)
⚜️فتاویٰ شامی میں ہے:
’’الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء … وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. وفي الذخیرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراء ة منه لایحرق بالنار، إلیه أشار محمد، وبه نأخذ، ولایکره دفنه، وینبغي أن یلف بخرقة طاهرة ویلحد له؛ لأنه لو شق ودفن یحتاج إلی إهالة التراب علیه، وفي ذٰلک نوع تحقیر، إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء، أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إلیه ید محدث ولاغبار ولاقذر؛ تعظیماً لکلام اللّٰه عز وجل‘‘. (فتاویٰ شامی،ج:۶،ص:۴۲۲،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب