زندگی میں ہبہ کی صورت

فتویٰ نمبر:386

سوال:ہم سب سات بہن بھائی ہیں (تین بھائی اور چار  بہنیں )والد محترم نے اپنی  زندگی میں پانچ پلاٹ  اپنے تین بیٹوں میں مالکانہ حقوق کے ساتھ دے دیے تھے اور  ایک پلاٹ ہم تین بہن بھائیوں  میں تقسیم کر دیا تھا  جس میں ہماری ایک بہن اپنے شوہر کے ساتھ  رہائش پذیر ہے ، والد محترم   کی ملکیت میں تقریباً آٹھ تولہ سونا بھی تھا  جوکہ انھوں نے اپنی زندگی میں  ایک بیٹی کو بطور قرض دے کر وصیت کی تھی کہ یہ سونا ایک بیٹی کو  دو تولہ اور باقیوں کو  ایک ایک تولہ سونا دینا ہے اس پر ہم سب کا اتفاق ہے ۔

   والد محترم کے انتقال کے بعد ہماری ایک بہن نے کہا کہ  ابو نے انتقال والے  دن وصیت کی تھی  کہ یہ سارا سونا مجھے دیا جائے ۔

        حل طلب :

(۱)ایک پلاٹ جو والد محترم نے ہم تینوں بہنوں میں تقسیم کیا تھا  اس میں خریدنے اور بیچنے کے  حوالے سے ہم کس حد تک مختار ہیں ؟

(۱)ہمارے بھائی ہم سے وہ پلاٹ  اپنی مرضی کی قیمت سے خریدنا چاہتے ہیں  کیا ہم بیچنے پر مجبور ہیں ؟

(۳) والد محترم نے اپنی زندگی میں اس وقت کی مارکیٹ کے حوالے سے وصیت کی تھی   کہ یہ پلاٹ اپنی بہنوں سے  اٹھارہ لاکھ میں لینا جبکہ  ابھی اس پلاٹ کی مارکیٹ زیادہ ہے کیا ہم پھر بھی اٹھارہ لاکھ پر بیچنے پر مجبور ہیں یا والد محترم کی وصیت بطور شفقت کے تھی  کہ بیٹوں کو نقصان نہ ہو ؟

(۴) ہماری ایک بہن کا سونے والے معاملہ میں یہ کہنا  کہ ابو نے انتقال والے دن فلاں وصیت  کی تھی  کیا اس وصیت کا اعتبار ہو گا ؟

خیر النساء نیو کراچی

الجواب حامدا ومصلیا

(۱) جن تین بہنوں میں یہ پلاٹ والد مرحوم نے  اپنی  زندگی میں تقسیم کیا تھا  یہ انہیں کی ملکیت ہے ،تینوں بہنوں کا اس میں برابر کا حصہ ہے  ،تینوں کی رضامندی سے ہی اس کو بیچا جا سکتا ہے ،تین بہنوں میں سے کوئی بہن پورا پلاٹ خریدنا چاہے  تو  دو بہنوں کو ان کے حصوں کی قیمت  دے کر ان کی  رضامندی سے خرید  سکتی ہے ۔(۱)

(۲)آپ اس معاملہ میں خود مختار  ہیں ،بیچنے پر مجبور نہیں ۔

(۳) والد مرحوم کی اس وصیت پر  عمل شرعاً ضروری نہیں  ،زیادہ قیمت پر بھی پلاٹ بیچا جا سکتا ہے ۔

(۴)اگر والد مرحوم نے واقعی کوئی ایسی وصیت کی ہے  تو ورثاء کے اتفاق کے بغیر  اس کا کوئی اعتبار نہیں (۳)

واضح رہے کہ زندگی میں وراثت کی تقسیم شرعاً ھبہ کہلاتی ہے اس میں  والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ تمام اولاد میں جائیداد برابر تقسیم کریں بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی اولاد کو زیادہ دینا  اور اس کے مقابلہ  میں دوسری اولاد کو بالکل نہ دینا  گناہ ہے   ،اگر چہ جس کو دیا ہے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے ۔(۲)

صورت مسئولہ میں والد کا اپنی ایک بیٹی کو  پلاٹوں میں سے بالکل نہ دینا ،اسی طرح لڑکوں کے مقابلہ میں  لڑکیوں کو کم دینا  اگر بغیر کسی شرعی وجہ  کے ہے تو یہ گناہ ہے   اس پر  ان کے لئے توبہ و استغفار  اور ایصال ثواب کرنا چاہیے۔

الأشباه والنظائر لابن نجيم (1 / 253):

لا إضرار على الورثة بعد موته

واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

کتبہ :محمدانس عبد الرحیم  عفی عنہ

دارالافتاء مدرسہ تعلیمات قرآنیہ

گولیمار گلبہار نمبر ۱کراچی

۱محرم ۱۴۳۰

۳۰دسمبر۲۰۰۸

 

فتح القدير للكمال ابن الهمام (10 / 411):

إن الوصية للوارث لا تجوز إلا بإجازة الورثة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
 
الجواب صحیح

سعید احمد

 

 

التخريج

(۱){ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا (29)} [النساء: 29]

تفسير الألوسي = روح المعاني (3 / 16):

 يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ بيان لبعض المحرمات المتعلقة بالأموال والأنفس إثر بيان تحريم النساء على غير الوجوه المشروعة، وفيه إشارة إلى كمال العناية بالحكم المذكور، والمراد من الأكل سائر التصرفات، وعبر به لأنه معظم المنافع، والمعنى لا يأكل بعضكم أموال بعض،

والمراد بالباطل ما يخالف الشرع كالربا والقمار والبخس والظلم- قاله السدي- وهو المروي عن الباقر رضي الله تعالى عنه وعن الحسن هو ما كان بغير استحقاق من طريق الأعواض

السنن الكبرى للبيهقي (8 / 316):

عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال رجل مسلم لأخيه , إلا ما أعطاه بطيب نفسه ” لفظ حديث التيمي وفي رواية الرقاشي: ” لا يحل مال امرئ , يعني مسلما , إلا بطيب من نفسه “

فتح القدير للكمال ابن الهمام (9 / 19):

وتصح بالإيجاب والقبول والقبض) أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 688):

وشرائط صحتها في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 696):

(۲)وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم (قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.

الفتاوى الهندية (4 / 391):

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع، كذا في فتاوى قاضي خان. وإن كان في ولده فاسق لا ينبغي أن يعطيه أكثر من قوته كي لا يصير معينا له في المعصية، كذا في خزانة المفتين.

ولو كان ولده فاسقا وأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه، كذا في الخلاصة.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 650):

(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه

إلا أن تجيز ورثته بعد موته)

سنن أبي داود (3 / 114):

 عن شرحبيل بن مسلم، سمعت أبا أمامة، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث» 

 

 

 

 

اپنا تبصرہ بھیجیں