سوال:السلام علیکم!
ایک خاتون کی 2 بیٹیاں ہیں اور کوئی بیٹا نہیں ملکیت میں 1 گھر ہے وہ چاہتی ہیں کے انکا گھر بعد مرنے کے آدھا آدھا دونوں بچیوں کو مل جائے کسی اور کی ملکیت میں نہ جائے تو اس لئے وہ اپنا گھر اپنی زندگی میں بچیوں کے نام کردیں کہ کوئی اور وارث نہ بنے تو کیا ان کا اس طرح کرنا شریعت کی رو سے صحیح ہے، کیا حکم ہے اس کا؟
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ!
واضح رہے اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو جائیداد میں سے کچھ دینا یا تقسیم کرناچاہے تو یہ “ہبہ” کہلاتا ہے، اور ”ہبہ” کے لیے شرط ہے کہ صرف زبانی طور پر نہ کہا جائے، بلکہ عملی طور پر مکمل قبضہ دے دیا جائے، اگر جائیداد صرف زبانی طور پر ہبہ کی ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار نہ دیا ہو، تو وہ جائیداد بدستور دینے والے کی ملکیت میں رہے گی۔
صورت مسئولہ میں اگر خاتون اپنا گھر اپنی دونوں بیٹیوں میں برابر تقسیم کرنا چاہتی ہیں تو ضروری ہے کہ دونوں بیٹیوں کو ہبہ کرکے مکمل قبضہ میں بھی دے دیں۔اگر قبضہ نہ دیا تو پھر مکان بدستور وراثت میں تقسیم ہوگا۔
یہ بھی یاد رہے کہ زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنے سے مقصود کسی دوسرے وارث کو نقصان پہنچانا مقصود نہیں ہونا چاہیے،ورنہ اس پر حدیث میں سخت وعید وارد ہوئی ہے۔
چنانچہ حدیث میں ہے:
“وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة”. رواه ابن ماجه”.
(ابن ماجة، باب الوصایا: 1 / 266 )
ترجمہ:
“حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلى الله علیه وسلّم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
1۔ فی المشکوٰۃ المصابیح:
” وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: “أكل ولدك نحلت مثله”؟ قال: لا قال: “فأرجعه” . وفي رواية …… قال: “فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم”.
(باب العطایا:1/261)
ترجمہ:
“حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو”۔
2۔ عن إبراہیم قال:
“الهبة لا تجوز حتی تقبض، والصدقة تجوز قبل أن تقبض”.
(باب الهبات: 9/107)
3۔ کما في الدر مع الرد:
“وتتم الهبة بالقبض الکامل”.
(کتاب الهبة: 4/569)
4۔ کما فی الفتاویٰ التاتارخانیة:
“وعلی جواب المتأخرین لا بأس بأن یعطی من أولاده من کان متأدباً”.
(الفتاوى التاتارخانية: 14/463)
5۔ “أما إذا قصد الوالد الإضرار أو تفضیل أحد الأبناء علی غیرہ بقصد التفضیل من غیر داعیة مجوزة لذلك فإنه لا یبیحه أحد”.
(تکملة فتح الملھم، کتاب الهبات: 3/65)
6۔ “و في الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، و إن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى”.
(فتاوى شامية، كتاب الهبة: 5/696)
فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب
25 جمادی الاولی1443ہ
29 دسمبر2021ء