فتویٰ نمبر:671
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بہت ذیادہ مہر مقرر کرنا کیسا ہے؟
محمد عبداللہ
واں بھچراں
الجواب حامدۃ ومصلیۃ
مہر کا ذیادہ مقرر کرنا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے.
“عن ابن عمر بن الخطاب قال الا لا تعالوا صدقۃ النساء فانھا لو کانت مکرمۃ فی الدنیا و تقوی عنداللہ لکان اولئکم بھا النبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماعلمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نکح شیاء من نسائہ ولا انکح شیاء من بناتہ علی اکثر من اثنتی عشرہ اوقیۃ “
ترجمہ:”حضرت عبداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو!سنو عورتوں کے مہر کو ذیادہ نہ رکھو کیونکہ یہ اگر دنیا میں عزت کی بات ہوتی تو تم سب میں سے ذیادہ مستحق اللہ کے نبی ہوتے اور مہر ذیادہ رکھتے,میں نہیں جانتا کہ اللہ کے نبی نے اپنی ازواج میں سے کسی سے نکاح کیا ہوا یا اپنی بیٹی کا نکاح کیا ہو 12 اوقیہ چاندی سے ذیادہ پر”(مشکوۃ باب الصدق’277)
تاہم اگر مہر ذیادہ مقرر کر دیا,جو مرد کی حیثیت سے ذیادہ ہے تو وہ اس مرد پر لازم ہو جائے گا اور نکاح ہو جائے گا.
“وتجب العشرہ ان سماھا اودونھا ویجب الاکثر منھا ان سمی الاکثر ویتاکد عند وطئ او خلوۃ صحت او موت احدھما”
(در مختار)
“قولہ یجب الاکثر ای بالغا ما بلغ”(رد المحتار باب المہر ج 2ص454)
واللہ اعلم بالصواب
بنت خالد محمود
دارالافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
14ربیع الثانی 1439ھ