فتویٰ نمبر:2086
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
ایک شخص زیور تیار کرکے دوکانداروں کو ہول سیل ریٹ پر بیچتے ہیں اور اس کی ادائیگی ایک مہینے کی ادھاری پر ہوتی ہے۔ دوکاندارخالص سونا یا نقدی دیتا ہے۔۔۔ یعنی اگر تیار زیور 30 گرام 21 کیریٹ کا ہے تو دوکاندار 28سے 29 گرام 24 کیرٹ سونا دیتا ہے
کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
والسلام
الجواب حامداو مصليا
سونے کو جب سونے کے بدلے ہی فروخت کیا جائے تو اس میں ایک طرف کم اور دوسری طرف زیادہ ہونا جائز نہیں، یہ سود ہے، اور یہ معاملہ ہاتھ در ہاتھ ہونا ضروری ہے، ادھار کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر سونے کو نقدی کے بدلے فروخت کیا جائے تو اس میں کمی بیشی اور ادھار دونوں جائز ہے۔
اس تفصیل کے مطابق صورت مسئولہ میں 30 گرام 21 کیرٹ کے سونے کو اتنے ہی وزن کے بدلے میں فروخت کرنا جائز ہے، کمی یا زیادتی کی صورت میں جائز نہیں اور اس میں ادھار کرنا بھی جائز نہیں۔
البتہ جب 30 گرام 21 کیرٹ کو نقدی کے بدلے میں فروخت کیا جائے تو اس میں جو قیمت بھی عاقدین آپس میں طے کریں درست ہے اور اس میں ادھار کرنا بھی درست ہے۔
عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم- الذہب بالذہب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء یدا بید فإذا اختلفت ہذہ الأصناف فبیعوا کیف شئتم إذا کان یدا بید․ (مسلم شریف:25/2)
فإن باع فضۃ بفضۃ، وذہبا بذہب لا یجوز إلا مثلا بمثل، وإن اختلفت في الجودۃ والصیاغۃ (وقولہ) وإن باع الذہب بالفضۃ جاز التفاضل لعدم المجانسۃ۔ (ہدایۃ، کتاب الصرف، أشرفي ۳/ ۱۰۴)
وإن اشتری خاتم فضۃ أو خاتم ذہب فیہ فص، أو لیس فیہ فص بکذا فلسا ولیست الفلوس عندہ، فہو جائز تقابضا قبل التفرق، أولم یتقابضا؛ لأن ہذا بیع ولیس بصرف۔ (عالمگیري، کتاب الصرف، الباب الثاني، الفصل الثالث في بیع الفلوس، زکریا قدیم ۳/ ۲۲۴، جدید ۳/ ۲۰۹، المبسوط للسرخسي، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱۴/ ۲۵)
و اللہ سبحانہ اعلم
قمری تاریخ:11ربیع الثانی 1440ھ
عیسوی تاریخ:19 دسمبر 2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: