نوح علیہ السلام کے بیٹے
انسانیت کی ابتداء آج سے 7000 سال پہلے حضرت آدم ؒ سے ہوئی ۔ چند معلوم وجوہات کی بناء پر سوائے چند لوگوں کے باقی سب ہلاک ہوگئے ۔ اب تک دنیا میں موجود تمام انسان حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں
(1)سام (2)یافث (3) حام کی اولاد ہیں ۔
جو کہ ان بچنے والے لوگوں میں شامل تھے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے تینوں بیٹوں کو دنیا کی آباد کاری کے لیے ہجرت کا حکم دے کر انہیں اطراف عالم روانہ کیا ۔
سام بن نوح : یہ اپنے والد بزرگورا کے سب سے بڑے بیٹے تھے ۔ ان کے فرزند وں کی تعداد 99 تھی ۔ جن میں ارشد ، ارفخشد ، کئے نود ،یود ، ارم قبطہ اور قحطان مشہور ہیں ،عرب کے تمام قبائلی انہی کی نسل سے ہیں ، حضرت ہود علیہ السلام ، صالح اور ابراہیم علیہ السلام اپنا سلسلہ نسب ارفخشد تک پہنچاتے ہیں ۔ ارفخشد کا دوسرا بیٹا کیمورث شاہان عجم کا مورث اعلیٰ ہے ۔
کیمورث کے چھ بیٹے تھے۔
- 1)سیامک 2)عراق 3) فارس 4) شام 5) تورا 6) رمغان
- یہ سب جہاں گئے وہ جگہ انہی کے نام سے موسوم ہوئی اور وہاں انہی کی اولاد آباد ہوئی ۔ بعضوں کا خیال ہے کہ نوح علیہ السلا کے ایک بیٹے کا نام عجم تھا دنیا میں تمام عجم انہی کی اولاد ہیں ( واللہ اعلم بالصواب )
کیمورث کے سب سے بڑے بیٹے سیامک کے بڑے بیٹے کانام ہوشگت تھا اور تمام شاہان عجم ” یزدجر ” تک اس کی اولاد ہیں۔
یافث بن نوح : حضرت یافث بن نوح مشرق اور شمال کی طرف گئے اور وہیں آباد ہوئے ۔ ان کے بہت اولاد ہوئی ۔ ان میں سب سے مشہور ” ترک ” تھے ۔ ترکستان کی تمام قومیں یعنی مغل،ازبک ، ترکمانی اور ایران کے وردما کے ترکمانی انہی کی اولاد ہیں ۔ یافث کے دوسرے مشہور بیٹے کا نام ” چین ” تھا ۔ملک چین انہی کے نام پر ہے ۔ تیسرے بیٹے کانام آردیس ہے اس کی اولاد شمالی ملکوں کی سرحد پر بحر ظلمات تک آباد ہوئی ۔ اہل تاجک غور اور سقلاب اسی کی نسل سے ہیں ۔ یاجوج ماجوج بھی انہیں کی نسل ہے۔
حام بن نوح :اپنے باقی دونوں بھائیوں کی طرح حام بھی اپنے عالی قدر والد کے ایما پر چلتے ہوئے دنیا کے جنوبی حصے میں پہنچے اور یہاں سکونت اختیار کی ان کے بھی چھ بیٹے ہوئے ۔
1)ہند 2) سندھ 3)حبش 4) افرنج 5) ہرمز 6) بویہ
ان سب بیٹوں کے نام پر ایک ایک شہر آباد ہوا ۔
جن میں سندھ نے علاقہ سندھ کو آباد کیا اور ٹھٹھہ اور ملتان کو اپنے بیٹوں سے آباد کیا۔
جبکہ ہند نے ملک ہندوستان کو رہنے کے لیے پسند کیا جس کے چار بیٹے
1)پورب 2) بنگ 3) دکن 4)نہروال تھے ۔ جو علاقے آج کل ان ناموں سے موسوم ہیں وہ انہیں کے آباد کئے ہوئے ہیں
دکن کے تین بیٹے ہوئے ۔
1)مرہٹ 2)کنہڑا 3) تلنگ
آج تک ان کی اولاد یں دکن میں قوموں کی صورت آباد ہیں ۔
نہروال کے تین بیٹے تھے جن کے نام 1)بھروج 2) کنبال 3) ماہراج ہیں
ان تینوں کے نام پر بھی تین شہر آباد ہوئے جہاں ان کی نسلیں رہتی ہیں ۔ نہر کے تیسرے بیٹے بنگ کی بہت اولاد ہوئی جنہوں نے سر زمین بنگال کو آباد کیا اور وہاں افزائش آباد کا ذریعہ بنے۔
جبکہ ان کے سب سے بڑے بھائی پورب کے یہاں 42 بیٹے ہوئے جن کی اولادیں اس قدر بڑھیں کہ انہیں اپنے خاندان میں سے ایک شخص ” کرشن” کو اپنا فرمانروا منتخب کرنا پڑا۔
کرشن کے عہد حکومت میں بعض صنعتوں کا قیام عمل لایا گیا۔ اور تقریباً 2000 گاؤں اور قصبے آباد ہوئے ۔ اس کے 37 بیٹے تھے اور عہد حکومت 400سال تھا ۔
کرشن کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا ” مہاراج” مسند حکومت پر متمکن ہوا۔اسی نے ملک کے نظم ونسق کواحسن طریقے سے انجام دینے کے لیے اپنی رعایا کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا۔ لوگ لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوئے ۔ا سی کے ایک سپہ سالار کی وجہ سے موسیقی کو ملک میں فروغ حاصل ہوا۔ 700 سال کی عمر میں زمام حکومت اپنے بیٹے کیشو راج کو سونپ کر ملک عدم کا راہی ہوا۔
کیشو راج نے 220 سال تک حکومت کی اس کے بعد منیر رائے مرکب اقتدار پر سوار ہوا۔ منیر نامی شہر اسی راجہ کے دور کی سوغات ہے ۔ ایک لڑائی کے نتیجے میں کلاہ حکومت راجہ سورج کے سر پر ٹھہرا ۔
ہندوستان میں بت پرستی کی ابتداء:
چونکہ حضرت نوح علیہ السلام کے پوتے ہند نے اپنے بزرگوں کو ایک خدا کی عبادت کر کے دیکھا تھا۔ لہذا وہ بھی توحید پرست رہا۔ اور اس کی اولاد بھی کئی نسلوں تک اسی مشروب کی پیروی کرتی رہی ۔ مہاراج کے زمانے میں ایک شخص ایران سے ہندوستان آیا اور اس نے یہاں کے لوگوں کو آفتاب پرستی کی تعلیم دی جسے کافی شہرت ملی ۔ راجہ سورج کے زمانے میں چہار کھنڈ کے کوہستان کا ایک برہمن ، جوجادو ٹونہ وغیرہ میں بڑی مہارت رکھتا تھا راجہ کے دربار میں آیا اور بہت رسوخ حاصل کیا ۔ اس نے راجہ کو بت پرستی کی تعلیم دی اور یقین دلایا کہ جو شخص کی شبیہ بناکر اسے پوجے گا وہ سیدھے راستے پر ہوگا۔ لہذا بادشاہ کی دیکھا دیکھی رعایا نے بھی اپنے بزرگوں کی مورتی بناکر اسے پوجنا شروع کردیا ۔ خود راجہ نے بھی دریائے گنگا کے کنارے ” قنوج نامی ایک شہر تعمیر کر کے وہاں بت پرستی شروع کردی کیونکہ وہ اس کا دارالسلطنت بھی تھا لہذا وہاں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا س کا نتیجہ یہ ہو اکہ تمام ہندوستان میں بت پرستی کی جانے لگی اور بت پرستوں کے مختلف 90 گروہ پیدا ہوگئے ۔ راجہ تو 250 سال کی عمر میں مرگیا لیکن ہندوستان میں یہی بت پرستی آج تک جاری ہے ۔ ہندو قوم آج 22 کروڑ دیوی ، دیوتا کے قائل ہیں ۔
یہ تمام حقائق ہندوستان کے عظیم اور مستند مؤرخ ملا محمد قاسم ہندو شاہ المعروف فرشتہ کی کتاب ” تاریخ فرشتہ ” سے ماخوذ ہیں ۔ بعض نکات دیگر معتبر کتب سے اخذ کیے ہیں ۔ اس لیے ان حقائق ومعلومات کو یکسر غلط اور دروغ گوئی کہنا سردت نہ ہوگا ۔
ہندوستان کس کا ہے ؟
جب نظریہ پاکستان کیاگیا تو ہندوؤں نے کہا کہ ہندوستان میں ہم ( بت پرست ) پہلےسے رہتے تھے اور مسلمان بعد میں آئے تھے لہذا ملک پر حکومت کا حق ہمارا ہے مذکورہ تاریخی معلومات کے ذریعے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے آکر بسنے والے انسان توحید پرست تھے اور اسی نسبت سے مسلمان بھی تھے ۔ جیسا کہ قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسلمان قرار دیا ہے ۔لہذا ہندوؤں کو اپنے غیر معقول عقیدے کی تصیح بھی کرنی چاہیے جس کی بنیاد ایک شخص نے صرف بادشاہ کے دربار میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے ڈالی تھی ۔ ہندو قوم کو چاہیے کہ وہ قرآن میں پیش کی گئی شرک کی قباحت پر غور کریں اور اپنی عاقبت کو سنوارنے کی فکر کریں ۔