زکوۃ سے متعلق اہم مسائل قسط:1
مقدارِ زکوٰۃ
مال کا چالیسواں حصہ [ ڈھائی فیصد ] زکوٰۃ میں دینا واجب ہے یعنی سو روپے میں ڈھائی روپے اور چالیس روپے میں ایک روپیہ [ یہ حساب کا طریقہ ہے کہ زکوٰۃ اس طرح واجب ہوتی ہے ورنہ صرف چالیس روپے میں زکوٰۃ واجب نہیں۔]
زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر
جب مال پر پورا سال گزر جائے تو فوراً زکوٰۃ ادا کردے، نیک کام میں دیر کرنا اچھا نہیں،ممکن ہے کہ اچانک موت آجائے اور یہ فرض گردن پر رہ جائے۔ اگر سال گزرنے پر زکوٰۃ ادا نہیں کی یہاں تک کہ دوسرا سال بھی گزر گیا تو گنہگار ہوا، اب بھی توبہ کرکے دونوں سالوں کی زکوٰۃ دے دے، غرض عمر بھر میں کبھی نہ کبھی ضرور دے دے، ذمے میں باقی نہ رکھے۔
زکوٰۃ کی نیت:
جس وقت زکوٰۃ کا روپیہ کسی غریب کو دے اس وقت اپنے دل میں اتنا ضرور خیال کرلے کہ میں زکوٰۃ میں دیتا ہوں، اگر یہ نیت نہیں کی، یوں ہی دے دیا تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، دوبارہ دینا چاہیے اور جتنا دیا ہے اس کا ثواب الگ ملے گا۔
اگر فقیر کو دیتے وقت یہ نیت نہیں کی توجب تک وہ رقم فقیر کے پاس ہے اس وقت تک یہ نیت کرلینا درست ہے، البتہ جب فقیر نے خرچ کرڈالاتو اس کے بعدنیت کرنے کا اعتبار نہیں، دوبارہ زکوٰۃ دے۔
کسی نے زکوٰۃ کی نیت سے کچھ رقم نکال کر الگ رکھ لی کہ جب کوئی مستحق ملے گا اسے دے دوں گا، پھر جب فقیر کو دیا اس وقت زکوٰۃ کی نیت کرنا بھول گیا تو بھی زکوٰۃ ادا ہوگئی، البتہ اگر زکوٰۃ کی نیت سے نکال کر الگ نہ رکھا تو ادا نہ ہوئی۔
کوئی قرض مانگنے آیا اور یہ معلوم ہے کہ وہ اتنا تنگ دست اورمفلس ہے کہ کبھی ادانہ کرسکے گایا ایسا نادہندہ ہے کہ قرض لے کر کبھی ادا نہیں کرتا، اس کو قرض کے نام سے زکوٰۃ کا روپیہ دے دیا اور اپنے دل میں سوچ لیا کہ میں زکوٰۃ دیتا ہوں تو زکوٰۃ ادا ہوگئی، اگر چہ لینے والا اپنے دل میں یہی سمجھے کہ مجھے قرض دیا ہے۔
اگر کسی کو انعام کے نام سے کچھ دیا مگر دل میں یہی نیت ہے کہ میں زکوٰۃ دیتا ہوں تب بھی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔