سوال: دو مہینے پہلے میں نے دن رات کی ماسی رکھی ہے، اس نے دو سال پہلے کسی پٹھان سے قرض لیا تھا جو لوٹا نہ سکی اب وہ پٹھان ہر مہینے اس پر سود لیتا ہے۔
اصل رقم دو لاکھ ہے اس پر پٹھان ہر مہینے 24 ہزار سود لیتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ ہم زکاۃ کی رقم سے ماسی کے قرض کی اصل رقم اتارسکتے ہیں؟
جتنے بھی ہم لوگ جمع کرسکیں اصل رقم کا قرض اتاردیں کیونکہ ماسی کو بھی پہلے سود کا پتہ نہیں تھا اب وہ توبہ تائب ہے اور آئندہ کے لیے سود پر قرض لینے پر بھی شرمندہ ہے۔
الجواب باسم ملھم الصواب
اگر واقعۃً ماسی نےانجانے میں سب کچھ کیا ہے اور آپ کا دل مطمئن ہے کہ یہ مستحق بھی ہے توپھر آپ زکوٰۃکی رقم سے گھر میں کام کرنے والی خاتون کے سودی قرضہ کی اصل رقم اتارسکتی ہیں۔
1۔ دار الافتا فتوی نمبر : 1439
اگر سوال میں مذکور خاتون سادات خاندان سے نہیں ہے، نیز وہ مستحق زکوة ہے، یعنی: اس کی ملکیت میں بہ قدر نصاب سونا، چاندی، کرنسی یا حوائج اصلیہ سے زائد مال نہیں ہے یا قرض منہا کر نے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتا تو ایسی خاتون کو قرضہ کی ادائیگی کے لیے زکوة دینا درست ہے ۔
2۔ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ ، وفی الظھیریة: الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ: ”لا یملک نصاباً“:قید بہ لأن الفقر شرط فی الأصناف کلھا،……،ونقل ط عن الحموي أنہ یشترط أن لا یکون ھاشمیاً (رد المحتار)
2۔فإن کان مدیوناً، فدفع إلیہ مقدار مالو قضیٰ بہ دینہ ولا یبقی لہ شیئی أو یبقی دون المأتین لابأس بہ ۔ (ہندیہ ، کتاب الزکاۃ، الباب السابع، فی المصارف زکریا۱؍۱۸۸، جدید۱/۲۵۰)
فإن کان علیہ دین یجوز أن یعطیہ قدر مایقضی دینہ، وزیادۃ دون مأتین۔ (مجمع الانہر ، کتاب الزکاۃ، باب فی بیان أحکام المصرف ، دارالکتب العلیمۃ بیروت ۱/۳۳۳)
فقط۔ واللہ اعلم بالصواب