فتویٰ نمبر:3006
سوال:ہمارے محلے کی مسجد میں تعمیرات جاری ہیں اور فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کیلیے ملحقہ مدرسے کے مہتمم نے زکوہ فنڈ کی تمام رقم طلبا میں تقسیم کردی اور کہا کہ طلبا بخوشی مسجد فنڈ میں عطیہ کردیں۔
اور اگر کوئی نہیں بھی کرتا تو کوئی گلہ نہیں۔۔
نتیجتا” تمام طلبا نے بخوشی و رضامندی سے وہ رقم مسجد فنڈ میں عطیہ کردی۔۔۔۔
محلے کے لوگ اس پر خوش نہیں۔۔۔کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے یا نہیں
والسلام
الجواب حامداو مصليا
مدرسے کے جن طلباء کو رقم دی گئی اگر وہ واقعی زکوٰۃ کی رقم کے مستحق تھے ۔تو یہ زکوۃ بھی ادا ہوگئی ہے اور طلباء نے مسجد فنڈ میں جو رقم برضا و رغبت عطیہ کی تو ان کا یہ عمل بھی مستحسن ہے۔محلہ والوں کو اس پر شرعاً اعتراض کا حق نہیں ہےوجہ اس کی یہ ہے کہ زکوٰۃ میں کسی مستحق کو بغیر عوض مال کا مالک بنانا شرط ہے ۔اور یہاں تملیک پائی گئی ہے۔یعنی پہلے طلبا کو زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنایا گیا۔پھر انہوں نے اپنی رضا سے یہ رقم مسجد کی تعمیرات میں دی ہے تو یہ ان کا صدقہ ہے جو شرعاً پسندیدہ ہے۔(بشرطیکہ ان طلبا میں کوئی نابالغ نہ ہو ۔کیونکہ نابالغ کا ہدیہ اور صدقہ دینے کا اعتبار نہیں(۲)۔)
وأما رکن الزکوٰۃ فرکن الزکوٰۃ ھو اخراج جزء من النصاب إلی اللہ تعالیٰ و تسلیم ذلک إلیہ یقطع یدہ عنہ بتملیکہ من الفقیر و تسلیمہ ألیہ۔۔۔(بدایع الصنائع:۲۹۸/۲)
یصرف الی کلھم او بعضھم تملیکا لا الی بناء مسجد و کفن میت و قضاء دینہ و ثمن ما یعتق لعدم التملیک و ھو الرکن و قدمنا ان الحیلۃ ان یتصدق علی الفقیر ثم یامرہ ان یفعل ھذہ الاشیاء و ھل لہ ان یخالف امرہ لم ارہ و الظاہر نعم ( امداد الفتاوی۱۶۵/۱) (الدرمع الرد: ۶۹/۲)
(۲)وشرائط صحتہا فی الواہب (العقل والبلوغ والملک) فلا تصح ہبۃ صغیر ورقیق ولو مکاتباً ۔ (الدر المختار مع الشامي:،کتاب الہبۃ،۵۶۵/۱۲)
فقط
🔸و اللہ سبحانہ اعلم🔸
قمری تاریخ:23 ربیع الثانی 1440ھ
عیسوی تاریخ:30 دسمبر 2018ء
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: