زکوة کے پیسوں سے مدارس میں چیزیں دلانا

فتویٰ نمبر:889

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

زکوۃ کے پیسوں سے مدارس میں ڈیسک اور گھڑیاں وغیرہ دلوائی جاسکتی ہیں؟

الجواب حامداو مصلیا

زکوٰۃ کی ادائی کے لیے کسی مستحق کو باقاعدہ مالک بنانا شرط ہے ۔

صورت مسئولہ میں مکمل طور پر گھڑیوں اور ڈیسک کا کسی مستحق کو مالک نہیں بنایا جارہا بلکہ وہ مدرسے میں وقف کی جارہی ہیں لہذا زکوۃ ادا نہیں ہوگی ۔ 

البحر الرائق میں ہے:

“الزکاۃ یجب فیہا تملیک المال؛ لأن الإیتاء في قولہ تعالیٰ: {وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ} یقتضي التملیک۔”

(البحر الرائق: ۲؍۲۰۱ ،کوئٹہ)

“ویشترط أن یکون الصرف تملیکاً لا إباحۃً۔”

(درمختار: ۳؍ ۲۹۱ ،زکریا)

“ولا یجوز ا لزکوٰۃ إلا بقبض الفقراء أو بقبض من یکون قبضہ قبضاً لہم۔”

(فتاویٰ تاتارخانیۃ : ۳؍۲۰۶ رقم: ۴۱۳۶) 

و اللہ سبحانہ اعلم

جاوید محمد سبطین غفر لہ

قمری تاریخ:16 محرم 1440

عیسوی تاریخ:26ستمبر 2018

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم 

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں