﴿ رجسٹر نمبر: ۱، فتویٰ نمبر: ۶﴾
سوال:- حضرت! ہم ۵/ بہنیں اور ۳/ بھائی اور والدہ حیات ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے ڈیڑھ مہینہ بعد ہم بہنوں کو دعوت پر بلایا گیا ۔ ایک مولانا صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور ہمارے تین چچا بھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم بہنوں کا اتنا اتنا حصہ شرعاً بنتا ہے نقدی کے حساب سے جو کہ ان کے پاس نہیں، اگر ہم بہنیں اپنا حصہ مانگتی ہیں تو وہ ہمیں ہر چیز کو ترکہ میں سے دیں گے جیسے کہ بکری کی ٹانگ موٹر کا ٹائر اور گائے کی دُم وغیرہ، اور ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ پٹھانوں میں بہن کبھی حصہ نہیں لے کر جاتی، اور یہ بھی کہاکہ جو بھی فیصلہ کرنا ہے ابھی کرو ورنہ نہیں۔
پھر مولانا صاحب نے کہا، نہیں! کل صبح ۹/ بجے تک وقت دے دو اس وقت رات کے ۱۱/ بج رہے تھے، چونکہ ہمارا ایک چهوٹا بھائی تھا جو دارالعلوم میں پڑھتا ہے، ہم نے دباوٴ اور مجبوری میں ہاں بول دیا کہ ہم نے بخش دیا مگر دل سے نہیں، پھر بعد میں پتا چلا کہ اس حساب میں بینک بیلنس اور ایک مکان اور کچھ دوکانیں ڈالی ہی نہیں تھی، اب ہم بہنیں اپنا حصہ چاہتی ہیں مگر وہ لوگ نہیں مان رہے ہیں۔ کیا ہمارا حق شریعت کے حساب سے بنتا ہے یا نہیں؟
بنات محمد فاروق
جواب:- قرآن و حدیث کی رو سے جس طرح بیٹے والد کی وراثت میں حق دار ہیں اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر ہے لہذا بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کے لیے مرحوم کی بیٹیوں کو ان کا حصہ دینے سے انکار کرنابالکل جائز نہیں ۔ایک حدیث کا مفہوم ہےکہ جس نے کسی وارث کو اس کے حصۂ میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس کے حصے کی جنت سے محروم فرما دیں گے۔نیز ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے بالشت بھرزمین بھی ناحق غصب کی قیامت کے دن ساتوں زمین کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔لہٰذا بھائیوں کے لیے بہنوں سے ان کے حصے زبردستی معاف کروانا جائزنہیں ، اس طرح زبردستی معاف کروانے سے بیٹیاں محروم بھی نہیں ہوتیں ۔
بہنوں کو ان کا حصہ دینے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ، مثلا :نقد رقم اگر موجود نہ ہو تو جائیداد میں سے بہنوں کو حصہ دے دیا جائے اور باقی اموال میں سے ان کی رضامندی سے ان کے حصہ کے مطابق کچھ ایسی چیزیں دے دی جائیں جوقابل استعمال ہوں ورنہ کچھ جائیداد وغیرہ بیچ کر نقد رقم کی صورت میں حصہ دیا جا سکتا ہے، الغرض ناجائز رسم و رواج کا حوالہ دے کر یا دباؤ ڈال کر ان کی دلی رضامندی کے بغیران سے ان کے حصے معاف کروانا بالکل جائز نہیں۔ شریعت کے خلاف رسم و رواج کا کوئی اعتبار نہیں شریعت کےاحکام سب مسلمانوں کے لیے یکساں ہیں چاہے کوئی پٹھان ہو یا غیر پٹھان !
رہی یہ بات کہ اس مسئلے میں بیٹیوں کا کتنا حصہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ والد صاحب کے کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تکفین و تجہیز کا خرچ نکالا جائے گا، پھر اگر ان پر کوئی قرض ہو تو وہ تمام ترکہ میں سے ادا کیا جائے گا، پھر اگر کسی غیر وارث کے حق میں انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہوتو اسے باقی مال کے تیسرے حصہ سے پورا کیا جائے گا، اس کے بعد جو مال بچے اس کے کل 88حصے کیے جائیں گے جن میں سے والدہ کو 11حصے، ہر بیٹے کو 14حصے اور ہر بیٹی کو 7 حصے دیے جائیں گے۔
قال الله تعالیٰ
”للذکر مثل حظ الانثيين“ ( النساء- 176)
قال الله تعالیٰ
”فان کان لکم ولد فلهن الثمن مما ترکتم“ (النساء:12)
(مسند أحمد ۵؍۷۲)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمه رضي اللّهٰ عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه عليه وسلم: لا يحل مال إمرء مسلم إلا بطيب نفس منه۔
وايضا:شعب الإيمان للبيهقي ۲؍۷۶۹، مشکاۃ المصابيح ۲۵۵، مرقاۃ المفاتيح ۳؍۳۵۰)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقط والله خیرالوارثین
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
الجواب صحیح
مفتی انس عفی اللہ عنہ
صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
الجواب صحیح
مفتی طلحہ ہاشم صاحب
رفیق دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی