فتویٰ نمبر:18
یوگا کےبارے میں شرعی حکم بیان کرنے سے پہلے یوگا کی حقیقت بیان کی جاتی ہے ، یوگا کی حقیقت آکسفورڈ ڈکشنری میں یوں بیان کی گئی ہے :
ترجمہ: یوگا ، ہندو تعلیمات کے مطابق ایک ایسی مشق ہے جس میں انسان کو اپنے جسم اورذہن پر کنٹرول ( قابو ) کرنا سکھایا جاتاہے اورا س کے پیچھے یہ عقیدہ کارفرماہے کہ آپ ایک آفاق روح کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
آکسفورڈ ڈکشنری ہی میں یوگا کی، بیان کی گئی دوسری تعریف یہ ہے :
ترجمہ: یوگا ایک جسمانی ورزش کا طریقہ ہے ، جس میں کوئی بھی شخص اپنے جسم اور اپنے سانس مذکورہ بالایوگا کی دونوں تعریفوں کا حاصل یہ ہے کہ یوگا کے بارے میں ایک نظریہ یہ ہے کہ یوگا ہندو مذہب کی عبادات اور رسومات کانام ہے ، جبکہ یوگا کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یوگا کسی مذہب کی عبادات ، یا رسومات نہیں ہے، بلکہ یوگا ایک جسمانی ورزش کا طریقہ ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے جسم اور سانس پر قابو پالینےاور اپنے اندر ذہنی اور جسمانی نشاط محسوس کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے ۔
یوگا سے متعلق جو کتابیں ہمیں دستیا ب ہوسکیں ان کے مطابق اس کی تقریبا ً کم وبیش ایک سو پچاسی ورزش کی ترکیبیں ہیں ، مثلا ً :
1۔ یوگا سیکھنے والے کو بتایا جاتا ہے کہ وہ آہستگی سے سانس لیتے ہوئے یہ تصورکرے کہ وہ پیٹ کو پھیلا کر پہلے پھیپھڑوں کا نچلا حصہ بھررہے ہیں ۔ اس کے بعد پسلی کا درمیانی حصہ اور پھر سینے کا اوپری حصہ ۔ سانس نکالتے وقت ا س کا الٹا یعنی اوپر سے نیچے اورآخر میں پیٹ کو ذرا سااندر کرکے پھیپھڑوں کو مکمل خالی کردیاجائے ۔ یہ تین حصوں میں گہراسانس لینا تمام یوگا کے سانس لینےو الے طریقوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ سانس لینے کےا س طریقہ کار کو ” دیر گا سواسم ” کہتے ہیں ۔
یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے ، اور اس میں متعددشرعی مفاسد پائے جاتے ہیں ، لہذا اگر واقعۃً یوگا سے متعلق جدید معلومات درست ہوں سے خرابیاں پائی جاتی ہوں تو ان کی موجودگی میں یوگا ورزش کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔تاہم اگر کوئی شخص اپنے جسم کو تندرست رکھنے کے لئے یا کوئی مریض ہوا ور ڈاکٹر حضرات اس کے علاج کے لیے یوگا تجویز ورزش کرے تو اس کی گنجائش ہے :
1۔ ماہر اطباء یوگا کے بارے میں اس بات کی تصدیق کرتے ہوں کہ یوگا انسانی امراض کے علاج کے لیے یا انسانی جسم کو تندرست رکھنے میں مفید ہے ۔
2۔ ہندوؤں کے یوگیوں یا غیر مسلموں سے یوگا ورزشیں نہ سیکھی جائیں ،کیونکہ اس میں دینی اور اخلاقی بگاڑ کا قوی اندیشہ ہے اور یہ عمل صرف ورزش کی غرض سے کیا جائے اس میں عبادت کی کوئی نیت شامل نہ ہو ۔
3۔ یوگا ورزشیں سیکھنے کے لیے کسی بھی غیر مذہب کی عبادت گاہوں ( مثلا مندروں ) کارخ نہ کیاجائے ۔
4۔ ورزش مرداور خواتین کے مخلوط ماحول میں نہ ہو ۔
5۔یوگا ورزش کرنے والے کے ذہن میں کوئی شرکیہ عقیدہ نہ ہو۔
6۔ یوگا ورزش کے وقت یوگیوں کے مخصوص ( گیر ویعنی لال رنگ کا ) کا لباس پہننے کو ضروری نہ سمجھاجائے ۔
7۔ یوگا ورزش سورج کے طلوع ہوتے وقت نہ کی جائے ، کیونکہ یہ ہندوؤں کی عبادت ( یوگا ) کا وقت ہے ، ا س وقت میں یوگا ورزش کرنے سے ہندوؤں کی عبادت کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے ۔
8۔ورزش کے دوران ستر ڈھکنے کا مکمل اہتمام ہو۔
9۔یوگاورزش کرنے سے پہلے، یا ورزش کے دوران ، یا ورزش کےا ختتام پر پڑھےجانے والے اسلامی تعلیمات کے خلاف مضامین پر مبنی مخصوص کلمات ( اشلوک ) ادا نہ کرے ۔
10۔ورزش کے دوران کسی بھی طرح ہندوؤں کے طریقہ کی نقالی نہ ہو، مثلا! ورزش کے دوران دونوں ہاتھ جوڑ کر پر نام ونمستے کرنا، یایوگیوں کی طرح فاسد عقیدہ رکھ کر آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا وغیرہ ۔
11۔ جو ورزش کی جائے وہ جسمانی لحاظ سے مضر نہ ہو ، مثلا ً ورزش کے دوران ٹکٹکی باندھ کر سورج کی طرف دیکھنا ، کیونکہ اس سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہوتی ہے ۔
12۔ یوگا ورزش علاج کے لیے یا اپنے جسم کو تندرست رکھنے کی نیت سے کی جائے محض وقت گزاری کے لیے نہ کی جائے۔
13۔یوگا ورزش کرنے والا یوگامیں مہارت ھاصل کرنے اور اس کے ذریعہ خلاف عادت افعال پرقادر ہونے کے درپے نہ ہو۔
14۔ محض یوگا ورزش میں بہتری اورترقی کے حصول کے لیے حلال چیزوں ( مثلاً گوشت ) سے پرہیز کا التزام نہ کرے ۔
15 ۔ یوگا ورزش میں اس قدر انہماک نہ ہو کہ فرائض اورواجبات میں کوتاہی واقع ہو۔
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں :
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/502128196823097/