یکم ذی الحجہ سے پہلے سرکے بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا گھر کے سرپرست کے ذمہ ہے یاسب گھر والے چھوٹے بڑے سب پہلے کاٹے گے اور ان دس دنوں میں نہیں؟
قربانی كرنے والوں کیلئے مستحب یہ ہے کہ وہ ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک اپنے ناخن یا بال نہ تراشیں، بشرطیکہ ان کو تراشے ہوئےچالیس دن نہ ہوئے ہوں، اور اگر چالیس دن ہوگئے تو پھر ان چیزوں کی صفائی ضروری ہے۔اسی طرح اگر مذکورہ چیزوں کی صفائی کو ابھی چالیس دن نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد کسی نے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لئےتو اس پر کوئی گناہ نہیں اور نہ قربانی پر کوئی اثر پڑے گا، کیونکہ مذکورہ حکم کی حیثیت صرف استحباب(کرنے پرثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں)کی حد تک ہے۔
نیزقربانی نہ کرنے والوں کیلئے یہ عمل مستحب تو نہیں ہیں لیکن اگر وہ بھی بال اور ناخن کاٹنے میں قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں تواللہ کی رحمت سے امید ہےکہ وہ ثواب سے محروم نہ ہوں گے۔
سنن الترمذي – (4/ 102):
عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، وأراد أن يضحي، فلا يأخذن من شعره، ولا من أظفاره»
مشكاة المصابيح الناشر : المكتب الإسلامي – بيروت (1/ 327):
1459 – [ 7 ] ( صحيح )
وعن أم سلمة قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” إذا دخل العشر وأراد بعضكم أن يضحي فلا يمس من شعره وبشره شيئا ” وفي رواية ” فلا يأخذن شعرا ولا يقلمن ظفرا ” وفي رواية ” من رأى هلال ذي الحجة وأراد أن يضحي فلا يأخذ من شعره ولا من أظفاره ” . رواه مسلم
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح – (3 / 1080):
(وَأَرَادَ) أَيْ: قَصَدَ. (بَعْضُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ) : سَوَاءً وَجَبَ عَلَيْهِ الْأُضْحِيَّةُ، أَوْ أَرَادَ التَّضْحِيَةَ عَلَى الْجِهَةِ التَّطَوُّعِيَّةِ، فَلَا دَلَالَةَ فِيهِ عَلَى الْفَرْضِيَّةِ، وَلَا عَلَى السُّنِّيَّةِ. وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ: فِي الْحَدِيثِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ غَيْرُ وَاجِبَةٍ ; لِأَنَّهُ فَوَّضَ إِلَى إِرَادَتِهِ حَيْثُ قَالَ: وَأَرَادَ) ، وَلَوْ كَانَتْ وَاجِبَةً لَمْ يُفَوِّضِ اهـ. وَتَبِعَهُ ابْنُ حَجَرٍ….الخ
وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَسْأَلَةَ خِلَافِيَّةٌ، فَالْمُسْتَحَبُّ لِمَنْ قَصَدَ أَنْ يُضَحِّيَ عِنْدَ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ أَنْ لَا يَحْلِقَ شَعْرَهُ، وَلَا يُقَلِّمَ ظُفْرَهُ حَتَّى يُضَحِّيَ، فَإِنْ فَعَلَ كَانَ مَكْرُوهًا. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هُوَ مُبَاحٌ، وَلَا يُكْرَهُ، وَلَا يُسْتَحَبُّ. وَقَالَ أَحْمَدُ: بِتَحْرِيمِهِ كَذَا فِي رَحْمَةِ الْأُمَّةِ فِي اخْتِلَافِ الْأَئِمَّةِ. وَظَاهِرُ كَلَامِ شُرَّاحِ الْحَدِيثِ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ
العرف الشذي للكشميري – (3/ 200):
ومسألة حديث الباب مستحبة والغرض التشاكل بالحجاج ، وأما حديث عائشة فلا يعارض ما ذكرت لأنه بعث الهدي في غير ذي الحجة وما ذكر ما في ذي الحجة .
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی