تسمیہ سے مراد ” بسم اللہ” یا مکمل ” ﷽” یا «بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ» یا “بسم اللہ العظیم و الحمد للہ علی دین الاسلام” ہےاگرچہ یہ حدیث غریب ہے لیکن فضائل اور ادعیہ میں ان احادیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اور بعض روایات میں تعوذوتسمیہ دونوں پڑھنے کا ذکر ہے۔ علامہ شامی کے نزدیک اگر تکبیر ، تہلیل، تحمید کے الفاظ استعمال کرے تب بھی سنت ادا ہوجائے گی۔
تسمیہ استنجاسے پہلے بھی سنت ہے اور وضوکے شروع میں بھی ۔البتہ بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت بسم اللہ اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث پڑھناچاہیے۔اگر بیت الخلاء میں داخل ہونے کے بعد یاد آئے تودل دل میں پڑھے زبان سے نہیں۔اسی طرح اگر کسی کھلی جگہ میں استنجاکرے توسترکھولنے سے پہلے بسم اللہ زبان سے پڑھےاگرسترکھولنے کے بعد یاد آئے تو دل میں پڑھے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 109)
وَتَحْصُلُ بِكُلِّ ذِكْرٍ، لَكِنَّ الْوَارِدَ عَنْهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «بِاسْمِ اللَّهِ الْعَظِيمِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى دِينِ الْإِسْلَامِ» (قَبْلَ الِاسْتِنْجَاء وَبَعْده) إلَّا حَالَ انْكِشَافٍ وَفِي مَحَلِّ نَجَاسَةٍ فَيُسَمِّي بِقَلْبِهِ؛ وَلَوْ نَسِيَهَا فَسَمَّى فِي خِلَالِهِ لَا تَحْصُلُ السُّنَّةُ، بَلْ الْمَنْدُوبُ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 109)
(قَوْلُهُ:: وَتَحْصُلُ بِكُلِّ ذِكْرٍ) فَلَوْ كَبَّرَ أَوْ هَلَّلَ أَوْ حَمِدَ كَانَ مُقِيمًا لِلسُّنَّةِ يَعْنِي لِأَصْلِهَا وَكَمَالِهَا بِمَا يَأْتِي، أَفَادَهُ فِي النَّهْرِ (قَوْلُهُ: لَكِنَّ الْوَارِدَ إلَخْ) قَالَ فِي الْفَتْحِ: لَفْظُهَا الْمَنْقُولُ عَنْ السَّلَفِ، وَقِيلَ عَنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «بِاسْمِ اللَّهِ الْعَظِيمِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى الْإِسْلَامِ» قِيلَ: الْأَفْضَلُ ” بِسْمِ اللَّه الرَّحْمَن الرَّحِيم ” بَعْدَ التَّعَوُّذِ. وَفِي الْمُجْتَبَى يُجْمَعُ بَيْنَهُمَا. اهـ. وَفِي شَرْحِ الْهِدَايَةِ لِلْعَيْنِيِّ الْمَرْوِيُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – «بِاسْمِ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ» رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ اهـ.