وجود باری تعالی: قسط نمبر 3
تحریر: مفتی انس عبدالرحیم
🌀 وجودباری تعالی کےسائنسی دلائل(scientific evidence)
وجودباری تعالی کے سائنسی دلائل بے شمار ہیں۔اہل علم ان دلائل میں اضافہ کرتے رہیں گے، تاہم یہاں وہ چند دلائل بیان کیے جارہے ہیں جو راقم کی نظر سے گزرے ۔ان دلائل کونمبروار بیان کیاجارہا ہے تاکہ ہضم کرنے میں آسانی رہے۔
1۔سائنس غلطی سے پاک نہیں:
ایک ہے سائنس کا تجربہ (experiment) اور مشاہدہ اور دوسری چیز ہے ان مشاہدات سے استنباط کیے گئے مفروضے اور تھیوریز (theories)
☝پہلی بات یہ ہے کہ غلطی کا امکان دونوں میں رہتا ہے گو مشاہدے میں غلطی کاامکان کم ہے لیکن بہر حال غلطی کا امکان اس میں بھی ہے۔خود سائنس کی تاریخ میں اس کے نظائر موجود ہیں ۔مثلا:گزشتہ عشروں میں جب کم طاقت کی دوربینوں سے آسمان کا مشاہدہ کیا گیا تو بہت سے ایسے اجسام مشاہدے میں آئے جو پھیلے ہوئےنور کی طرح دکھائی دے رہے تھے ۔یہ ایک مشاہدہ تھاجس کے بل پر یہ نظریہ قائم کیاگیاکہ یہ گیس کے بادل ہیں جو ستارہ بننے کے پہلے کے مرحلے سے گزررہے ہیں۔مگر جب مزید طاقت ور دوربینیں ایجاد ہوئیں اور ان اجسام کو قریب سےدیکھا گیا تو نظرآیا کہ یہ گیس کے بادل نہیں بلکہ بے شمارستاروں کا مجموعہ ہے جو غیرمعمولی دوری کی وجہ سے بادل کی مانند نظر آرہا تھا۔ معلوم ہوا کہ مشاہدے میں غلطی ہوسکتی ہے۔
تو جب مشاہدے میں غلطی ہوسکتی ہے تو مشاہدات وتجربات سے حاصل شدہ قیاس واستنباط میں غلطی کے امکانات تو اور بھی زیادہ ہیں۔نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس کی بیان کردہ ہر چیز قطعی نہیں،بلکہ غلطی کا امکان ہروقت موجود ہے۔
2۔کیا سائنسی تھیوریز اور قوانین فطرت غیرمرئی نہیں؟
دوسری بات جواصل میں یہاں مطلوب ہے کہ مشاہدہ نظرآنے والی چیزوں کا کیاجاتا ہے لیکن سائنس دان،ان سے قدرت کے جن قوانین کا استنباط کرتے ہیں وہ سب غیرمرئی ہوتے ہیں۔
مثالیں:
♦پانی ایک رقیق اور سیال چیز ہے۔یہ ایک مشاہدہ ہے،آنکھوں سے نظرآنے والی حقیقت ہےمگر یہ فارمولا کہ پانی کاہرمالیکیول(molecule) ہائیڈروجن (hydrogen) کے دو ایٹم( atoms) اور آکسیجن (oxygen) کے ایک ایٹم پر مشتمل ہوتا ہے،یہ فارمولا ہمیں کسی خوردبین سے بھی نظرنہیں آسکتا۔
♦کشش ثقل کوآج تک کس نےدیکھا ہے؟
♦انرجی کو کس نے دیکھا ہے؟
♦ایٹم اور اس کے اجزا کا کس نے مشاہدہ کیاہے؟
♦نیچر کیا ہے؟کس نے نیچر کامشاہدہ کیا ہے؟
♦قدرت کے اٹل اصولوں کا کب کسی نے مشاہدہ کیا ہے؟
کوئی سائنس دان نہیں جانتا کہ قدرت اور نیچر کیا ہے؟ بس اندھا اعتقاد،بلکہ ایمان بالغیب ہے۔
سوآپ کا ایمان بالغیب قوانین قدرت پر ہےاور مذہب کا ایمان بالغیب ان قوانین قدرت کے محرک اور خالق پر ہے ۔ بتائیے کس کی بات میں زیادہ وزن ہے؟
🌀3۔ سائنس جزئیات وتفصیلات بتاتی ہے، مکمل حقائق نہیں؟
سائنس کے تجربات ومشاہدات ہمیں جو چیزیں بتاتے ہیں وہ پہلے سے موجود واقعات کی تفصیلات اور جزئیات ہوتی ہیں،مکمل حقائق نہیں ۔مثلا: قدیم علم اتنا تھا کہ بارش بادلوں سے ہوتی ہے۔اب سائنس اسی کی مزید تفصیلات بیان کردیتی ہے کہ پہلے بخارات اٹھتے ہیں جس سے بادل بنتے ہیں پھر ہوائیں انہیں آگے لے جاتی ہیں اور جب منفی اور مثبت قوتوں والے بادل آپس میں ٹکراتے ہیں تو بجلی اور کڑک پیدا ہوتی ہے اور بارش ہوتی ہے۔قدیم انسان نظام ہضم کے بارے میں مجمل سی معلومات رکھتا تھا، سائنس نے اسی کی مزید تفصیل کردی ہے اور مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ غذا انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد کس عجیب وغریب اور خود کار نظام کے تحت مختلف مراحل سے گزر تی ہے۔کائنات کی وسعتوں کے بارے میں انسانوں کو پہلے اتنی تفصیلی معلومات نہ تھیں جتنی اب ہیں۔یہی حال تمام علوم وفنون کا ہے ۔بگ بینگ بھی صرف تخلیق کائنات کا ممکنہ عمل بتاتا ہےکہ شاید کائنات اس طرح دھماکے سے وجود میں آئی ہوگی اور اس کی تفصیلات وجزئیات یہ رہی ہوں گی۔
اگرآپ غور کریں تو سائنس صرف تفصیلات بیان کرتی اور ان کے پیچھے کارفرماقوانین قدرت کا کھوج لگاتی ہے، سائنس یہ ہرگز نہیں بتاتی کہ دنیا میں موجود اس منظم اور محیرالعقول کائنات ،اس کی وسعتوں اور ان کے پیچھےموجود قوانین فطرت کا واضع(creator) کون ہے اور اس کا ان سے کیا مقصد ہے؟ جیسے کسی مشین کے اوپر ایک ڈھکن لگا ہوا ہو تو ہم صرف یہ جانتے ہیں مشین چل رہی ہے لیکن اگر ڈھکن اتاردیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ باہر کا چکر اندر کے ایک چکر کی وجہ سے چل رہا ہے اور وہ چکر بھی بہت سے پرزوں کے ساتھ مل کر حرکت کرتا ہےاور بہت ممکن ہے کہ ہمیں مشین کے بارے میں مکمل جانکاری مل جائے؛لیکن کیا اس جانکاری کے بل پر ہم یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ یہ مشین خود بن گئی تھی؟
اسی طرح کائنات کی بعض جھلکیاں دیکھ لینے سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ یہ کائنات خود بن گئی ہے؟
یہ مذہب ہی ہے جو بتاتا ہے کہ اس نظام کے خالق اللہ تعالی ہیں جس نے یہ تمام کائنات اور اس کے خود کار قوانین وضع کیے اوراسی نے امتحان کے لیے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے۔
🌀4۔ اشیاء کی ابتدا و انتہا کس کا پتا دیتی ہے؟
سائنس تسلیم کرچکی ہے کہ کائنات اپنا آغاز رکھتی ہےاور ایک وقت آئے گا کہ کائنات فنا ہوجائے گی۔بگ بینگ کائنات کے آغاز کو بتاتا ہے۔آئن اسٹائن کہتا ہے کہ کائنات غبارے کی طرح پھیل رہی ہےاورآخر کار غبارے کی طرح پھٹ جائے گی۔ قانون ناکارگی ہمیں باور کراتا ہے کہ کائنات کی ناکارگی بڑھ رہی ہے ، ایک وقت آئے گا کہ تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی اور کوئی کارآمد توانائی باقی نہیں رہے گی اورزندگی بھی اسی کے ساتھ ختم ہوجائے گی۔
جب کائنات اپنا آغاز رکھتی ہے تو یہی نکتہ خدا کی صداقت کو ثابت کردیتا ہے،کیونکہ جو چیزاپناآغاز رکھتی ہو وہ اپنےآپ شروع نہیں ہوسکتی ۔یقیناوہ ایک محرک اول،ایک خالق،ایک خدا کی محتاج ہے۔اس قانون کو Entorpyکا قانون کہتے ہیں۔
کائنات کے وجود کو اتفاق کہنا حقائق کی نفی کرنا ہے؟
منکرین خدا ،اتفاق اور اچانک ہوجانے والے حادثے کے فارمولے سے کائنات کا وجود ثابت کرتے ہیں ۔حالانکہ یہ محض ایک لغو بات ہے۔ہمارے آج تک کے علوم ایسے کسی اتفاق سے قطعا ناواقف ہیں جس کے نتیجے میں اتنا عظیم ،اس قدر بامعنی اور مستقل واقعہ وجود میں آجائےجیسی کہ یہ کائنات ہے۔پروفیسرایڈون کے الفاظ میں “زندگی کابذریعہ حادثہ وجود میں آجانا ایسا ہی ہے جیسے کسی پریس میں دھماکا ہوجانے سے ایک ضخیم لغت کا تیار ہوجانا۔”
امریکی ماہر عضویات ایم۔بی۔کریڈ لکھتا ہے :
“تخلیق کے تمام ضروری اسباب کاصحیح تناسب کے ساتھ اتفاقااکٹھا ہوجانے کا امکان ریاضیاتی طور پر قریب قریب نفی کے برابر ہے۔”
▪امریکی عالم طبیعیات جارج اول ڈیوس کہتا ہے:
“اگرکائنات خود اپنےآپ کو پیدا کرسکتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے اندر خالق کے اوصاف رکھتی ہے ۔ایسی صورت میں ہم یہ ماننےپرمجبور ہوں گے کہ کائنات خود خدا ہے۔اس طرح اگرچہ ہم خدا کے وجود کو توتسلیم کرلیں گے لیکن وہ نرالاخدا ہوگا جو بیک وقت مافوق الفطرت بھی ہوگا اور مادی بھی۔میں اس طرح کے کسی مہمل تصور کو اپنانے کے بجائے ایک ایسے خدا پر عقیدے کو ترجیح دیتا ہوں جس نے عالم مادی کی تخلیق کی ہےاور اس عالم کا وہ خود کوئی جزو نہیں بلکہ اس کا فرماں روا اور ناظم ومدبر ہے۔”
🌀 5۔مادی ذہن غیر مادی چیز کو سمجھنے سے قاصر ہے :
سائنس مادے سے بحث کرتی ہے جبکہ خدا اور عالم آخرت غیرمادی چیزیں ہیں۔مادی چیزوں سے بحث کرنے والا غیرمادی چیز سے بحث کرے گا تویقینا غلط نتیجہ ہی نکالے گا۔اس لیے سائنس کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ رسول اور آخرت سے بحث کرے ۔ماہرِطبیعیات کاالہیات میں دخل اندازی کرنا ایسا ہے جیسے درزی کا انجینئرنگ میں رائے دینااورایک معالج کاکاشت کاری کے امور میں رائے دینا۔
🌀 6۔اے انسان! کیا اپنا کیا ہوا وعدہ بھول گئے؟
آگسٹ کامٹے( جو انیسویں صدی کا فرانسیسی مفکر گزرا ہے) کہتا ہے:
تاریخی لحاظ سے انسان فکری طور پر تین مراحل سے گزرا ہے۔تاریخ کے بالکل ابتدائی دور میں انسان خدائی طاقتوں کا قائل تھا۔(اس کے بعد کامٹے نے دوسرے دومرحلے بھی بیان کیےلیکن اس سے ہمیں فی الحال کوئی سروکار نہیں،اس لیے ہم انہیں ذکر بھی نہیں کررہے)ہمارے سامنے ابھی یہ بات ہے کہ کامٹےکے تجزیے سےکم ازکم یہ بات ثابت ہوگئی کہ انسان اپنی اصل کے لحاظ سے خدا کا قائل ہے اور دراصل یہی اصل فطرت ہےاس فطرت کو دورجدید مسخ کرنے کے درپے ہے لیکن وہ مسخ کرنہیں پائے گی۔خدا کے وجود پر ایمان ایک طرح سے انسان کی جنیٹنگ کوڈنگ میں موجود ہے۔ہردور میں عالمگیر طور پر سب ہی خدا کو مانتے آئے ہیں،اس لیے اس کا انکار اپنی اصل اور فطرت سے آنکھیں چرانا ہے۔
🌀 تعصب کی عینک اتار کر تو دیکھ، وہ سمجھ میں نہ آیا تو کہنا!
بہت سے سائنس دان ڈھکے چھپے الفاظ میں اللہ تعالی کے وجود کا اعتراف کرچکے ہیں لیکن آزادی سلب ہونے کاخوف، مخصوص طرز فکر پر جمود،تعصب اور سائنسی سماج انہیں اس حق کی طرف آنے نہیں دیتا۔
▪وحیدالدین خان اپنی کتاب”علم جدید کا چیلنج” میں ص 53،54پر لکھتے ہیں:
“جیمرجینزنے اپنی کتاب”پراسرارکائنات”کے آخر میں نہایت صحیح لکھا ہے کہ ہمارے جدید ذہن ،واقعات کی مادی توجیہ کے حق میں ایک طرح کا تعصب رکھتے ہیں۔”
وھٹکرچیمبرز نے اپنی کتاب”شہادت” میں لکھا ہے:
“میں ایک بار اپنی بچی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر بچی کے کان پر پڑی اور غیرشعوری طور پر وہ اس کی ساخت کی طرف متوجہ ہوگیا۔اس نے اپنے دل میں سوچا” یہ کتنی غیر ممکن بات ہے کہ ایسی پیچیدہ اور نازک چیز محض اتفاق سے وجود میں آجائے،یقینا یہ پہلے سے سوچے سمجھے نقشے کے تحت ہی ممکن ہوسکی۔”مگر پھر اس نے بہت جلد ہی یہ خیال اپنے دل سے نکال دیا کیونکہ اسے احساس ہوا کہ اگر وہ اس کو ایک منصوبہ مان لے تو اسے منصوبہ ساز یعنی خدا کو بھی ماننا ہوگا۔اور یہ اس کے لیے ایک ایسا تصور تھا جسے قبول کرنے کے لیے ذہن آمادہ نہ تھا۔”
اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئےٹامس ڈیوڈ پارکس لکھتا ہے :
“میں اپنے پروفیسروں اور ریسرچ کے سلسلے میں اپنے رفقائے کار میں بہت سے سائنس دانوں کے بارے میں جانتاہوں کہ علم کیمیااور طبیعیات کے مطالعے وتجربے کے دوران انہیں بھی متعدد مرتبہ اس طرح کے احساسات سے دوچارہونا پڑا۔”
ارشاد باری تعالی ہے:
اَفِي اللّہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ اِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى (ابراھیم۔آیت 10)
ترجمہ:” کیا اللّٰہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔”
غورکیاجائے تو زمین آسمان،چاند،سورج،دن رات،خشکی پانی ،نباتات،جمادات،بادل، فضا، خلا اور تمام ہی مخلوقات بلکہ ذرہ ذرہ کےاندر اللہ رب العزت کی ان گنت نشانیاں ہیں۔کائنات کی ابتدا سے لے کر انتہا تک ہر چیزانتہائی خوب صورت ہےاور ایسے بے مثال نظم وربط سے قائم ہے کہ مادے جیسی بے عقل چیز کی طرف اس کی نسبت کوسوائےحماقت اور تجاہل عارفانہ کے کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتا۔
وجود باری تعالی اور قدرت کی ان گنت خوب صورتیوں کو جاننے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید رہے گا:
علم جدید کا چیلنج(مؤلف: مولانا وحید الدین خان)
قرآن کے سائنسی انکشافات(ڈاکٹرولی رازی)
تو دل میں توآتا ہے سمجھ میں نہیں آتا(مؤلف:محمدانس عبدالرحیم)
(ختم شد۔۔۔۔)