وراثت کی تقسیم

سوال : میرے والد (عبد الجبار ) کا انتقال 12 مارچ 2023 کو ہوا ہے۔ انکی میراث کے حوالے سے چند امور پر رہنمائی فرمائیں:

1: کیا میت کے چچا کے بیٹے عصبہ بنیں گے؟ (جبکہ میت کا کوئی بیٹا،بھائی یا والد نہیں ہے۔

2: کس وارث کا کتنا حصہ بنے گا؟

3: والد کے کھانے پینے اور برتنے کی اشیاء کی تقسیم کس طرح کی جائے؟ جب کہ مختلف چیزوں میں ایک وارث کہتا ہے کہ یہ مجھے دے دیں اور دوسرا کہتا ہے کہ مجھے دے دیں، تیسرا کہتا ہے کہ ان کو نہیں دینا ہم اپنی مرضی سے کسی کو دیں گے۔۔

وارثین اور ترکہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
عبد الجبار کے وارث:
▪️ 4 بیٹیاں
▪️بیٹا (کوئی نہیں)
▪️1 بیوی
▪️5 بہنیں(6 بہنیں تھیں جن میں سے 1 کا میت سے پہلے ہی انتقال ہوچکا۔ اب 5 حیات ہیں)
▪️بھائی (کوئی نہیں )
▪️والدین کا انتقال ہو چکا ہے
▪️ایک ہی چچا تھے جن کا انتقال ہوچکا ہے۔ ان کے تین بیٹے ہیں اور 3 بیٹیاں ہیں ۔ (چچا کی پہلی بیوی سے علیحدگی ہوگئی تھی، ان سے دو بیٹے تھے ۔ لیکن ان سے علیحدگی کے بعد رابطہ وغیرہ نہیں رہا۔۔ تو ان بیٹوں کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں معلوم کے کہاں پر ہے)۔
(چچا کی دوسری بیوی سے ایک بیٹا اور 3 بیٹیاں ہیں)۔
(حال ہی میں پتہ چلا ہے کہ چچا کی تیسری بیوی بھی تھیں اور ان سےبھی ایک بیٹا ہے لیکن کسی کو بھی یقینی علم نہیں کے کیا واقعی ان کی تیسری شادی ہوئی تھی اور اگر ہوئی تھی تو کس سے ہوئی اور نہ ہی یہ کہ وہ اب کہاں ہیں)۔

میراث کی چیزیں:
▪️فلیٹ
▪️نقدی
▪️دوائیاں
▪️کھانے پینے کی چیزیں
▪️مریض کے استعمال کے لیے پلنگ اور دوسری اشیاء
▪️پہننے اوڑھنے کا سامان
▪️پنکھا وغیرہ

تنقیح :
کیا مرحوم کے دادا ، دادی یا نانی اس کے انتقال کے وقت حیات تھے یا نہیں ؟؟
جواب تنقیح : نہیں ۔

الجواب باسم ملھم الصواب

1 ۔ میت کے چچا کے بیٹے عصبہ نہیں بنیں گے؛کیونکہ میت کی بیٹیاں موجود ہیں، ان کی وجہ سے بہنیں جو عصبہ بنتی ہیں وہ قریبی عصبات ہیں،لہذا ان کی موجودگی میں چچا کے بیٹے جو دور کے عصبات ہیں وہ وارث نہیں ہوں گے۔

———–
2) ۔ مرحوم نے انتقال کے وقت جو کچھ منقولہ ،غیر منقولہ مال وجائیداد، دکان مکان نقدی ،سونا چاندی غرض ہر قسم کا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے۔اس ترکہ میں
▪️سب سے پہلے میت کی تجہیزوتکفین کا خرچ نکالا جائے،
▪️اس کے بعد اگر مرنے والے کے ذمے کوئی قرض ہو تو اس کو ادا کیا جائے،
▪️قرض کے بعد تیسرا حق وصیت کا ہے میت نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے بقیہ مال کی تہائی( 1/3 ) میں نافذ کیا جائے۔
▪️اس کے بعد جو مال بچے گا اس کے کل 24 حصے کیے جائیں گے ؛
جن میں سے
↙️ بیوی کے لیے 3 حصے

↙️ چاروں بیٹیوں کے لیے 16
ہر بیٹی کو 4 حصے ملیں گے

↙️ بہنوں کے لیے 5 حصے
ہر بہن کو 1 حصہ ملے گا
——-

3) بقیہ جو استعمال کی چیزیں ہیں، مثلا : کپڑے جوتے ، دوائیاں ، پلنگ ، پنکھا وغیرہ اور نقدی سب ترکہ میں شامل ہوں گے ، جو سب ورثہ کے درمیان ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔ البتہ اگر سب ورثاء بالغ ہوں اور باہمی رضامندی سے آپس میں تقسیم کرنا چاہیں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں ،اسی طرح اگر کسی غریب کو دینا چاہیں تو بھی دے سکتے ہیں۔
اگر کوئی نابالغ وارث تو اس کے حصے کی چیز،اس کی اجازت سے بھی کسی کو دینا درست نہیں ۔
اسی طرح جو فلیٹ ہے اس کو بیچ کر اس کی قیمت کو ترکہ میں شامل کیا جائے گا،البتہ اگر کوئی وارث اس فلیٹ کو خریدنا چاہے تو دیگر ورثاء کی رضامندی سے خرید سکتا ہے، پھر وہ خریدنے والا وارث اس رقم مین سے اپنا حصہ نکال لے گا اور باقی رقم ورثاء میں ان کے حصوں کے بقدر تقسیم کردی جائےگی۔
==================
حوالہ جات:
1 ۔ يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ۔۔۔۔الخ۔
(سورة النساء: 11)۔
ترجمہ : ” اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کو ترکہ کی دو تہائی اور اگر ایک لڑکی تو اس کا آدھا مال ملے گا”۔

2 ۔ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ… الخ
(سورة النساء: 12).
ترجمہ : “پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے (یہ حصے) اس وصیت کے بعد (ہوں گے) جو وصیت تم کر جاؤ اور قرض (کی ادائیگی کے بعد)”۔۔۔الخ”۔

3 ۔ ” قال علماءناؒ:تتعلق بترکةالمیت حقوق اربعة مرتبة:الاول یبدء بتکفينه…… ثم تقضی دیونه  من جمیع ما بقی من ماله…. ثم یقسم الباقی بین ورثته بالکتاب والسنة واجماع الامة”۔
(السراجی فی المیراث: ص:13 /ط:بشری)۔

4 ۔ ” وھم: کل من لیس لہ سہم مقدر، ویاخذ ما بقی من سہام ذوی الفروض، واذا انفرد اخذ جمیع المال۔۔۔۔۔۔۔۔ اذا اجتمعت العصبات ، بعضھا عصبة بنفسھا، وبعضھا عصبة بغیرھا، وبعضھا عصبة مع غیرھا فالترجیح منھا بالقرب الی المیت لا بکونھا عصبة بنفسھا، حتی ان العصبہ مع غیرھا اذا کانت اقرب الی المیت من العصبة بنفسھا کانت العصبة مع غیرھا اولی۔
(الفتاوی الھندیہ : 444/6)۔

5 ۔ وعصبة مع غيره وهي كل أنثى تصير عصبة مع أنثى أخرى كالأخوات لأب وأم أو لأب يصرن عصبة مع البنات أو بنات الابن، هكذا في محيط السرخسي مثاله بنت وأخت لأبوين وأخ أو إخوة لأب فالنصف للبنت والنصف الثاني للأخت ولا شيء للإخوة؛ لأنها لما صارت عصبة نزلت منزلة الأخ لأبوين.
( الفتاوی الھندیہ : 451 /6، ط : دارالفکر )۔

6 ۔ اگر متوفی کی بیٹی، بہن اور بنو العم ہوں تو ۔۔۔۔۔بہن اقرب ہونے کی وجہ سے حقدار ہوگی، بنو العم ( چچازاد بھائی ) محروم ہوں گے کیونکہ وہ اگرچہ عصبہ بنفسہ ہیں مگر بعید ہیں، پس بوجہ قاعدہ ” الاقرب فالأقرب” بہن مقدم ہوگی۔
(فتاوی دارالعلوم دیوبند: میراث کا بیان ، 555/17)۔

واللہ خیر الوارثین۔
23 شوال 1444
13 مئی 2023۔

اپنا تبصرہ بھیجیں