وراثت کی تقسیم

فتویٰ نمبر:4058

سوال: مرحوم کے ترکہ میں ایک بیوہ دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

ترکہ میں موجود گھریلو سامان کی تقسیم کا کیا طریقہ کار ہے؟

کیا گھریلو سامان کو بیچ کر اسکی قیمت کو وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا؟

یا سامان بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے؟

گھریلو سامان میں سے کچھ اشیاء اگر کوئی ایک وارث دوسرے وارثوں کی رضامندی سےلینا چاہے تو کیا بنا اسکی قیمت ادا کئے لے سکتا ہے یا نہیں؟

اگروراثت کی تقسیم سے پہلے ترکہ کی کوئی چیز کسی وارث سے خراب ہوجائے تو اس کی تصحیح کیلئے مرحوم کی متروکہ رقم استعمال کی جائے گی یا اس وارث کے ذمہ داری ہوگی جس سے وہ چیز خراب ہوئی ہے؟ 

الجواب حامدۃو مصلية

مذکورہ صورت میں مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملكیت میں جو كچھ منقولہ غیرمنقولہ مال و جائیداد، دكان مكان، نقدی ،سونا، چاندی غرض ہر قسم كا چھوٹا بڑا جو بھی سازوسامان چھوڑا ہے، وہ سب مرحوم كا تركہ ہے۔

1⃣ اس میں سے سب سے پہلے مرحوم كے كفن دفن كا متوسط خرچہ نكالا جائے، اگر كسی نے یہ خرچہ بطور احسان ادا كردیا ہے تو پھر تركے سے نكالنے كی ضرورت نہیں۔

2⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم كے ذمے كسی كا كوئی قرض واجب الادا ہوتو اُس كو ادا كیا جائےاور اگر مرحوم نے بیوی كا حق مہر ادا نہیں كیا تھا اور بیوی نےبرضا و رغبت معاف بھی نہیں كیا تو وہ بھی قرض كى طرح واجب الادا ہے، اُسے بھی ادا كیا جائے۔

3⃣ اُس كے بعد دیكھیں اگر مرحوم نے كسی غیر وارث كے حق میں كوئی جائز وصیت كی ہو توبقایا تركے كے ایك تہائی حصے كی حد تک اُس پر عمل كیا جائے۔

4⃣ اُس كے بعد جو تركہ بچے اُس كے كل 32 برابر حصے کیے جائیں گے۔

🔵 جس میں سے :

🔹بیوہ کو 4

🔹 بیٹےکو 14

🔹فی بیٹی کو 7

حصہ ملے گا۔

🔵 فیصد کے حساب سے

🔹 بیوہ کا حصہ 12.5% 

🔹 بیٹے کاحصہ %43.75 

🔹 فی بیٹی کا حصہ 21.87% 

ہے۔

اب بقیہ سوالوں کے جواب ملاحظہ کریں:

1. گھر میں موجود سامان کی تقسیم کے متعدد طریقے ممکن ہیں: 

ایک طریقہ یہ ہے کہ کوئی ایک وارث تمام سامان کو مارکیٹ ویلیو سے خریدکر اپنے حصے کی قیمت مائنس کرکے بقیہ رقم ورثاء میں ان کے حصص کے بقدر تقسیم کردے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ باہر کا کوئی شخص یہ سامان خریدلے جو رقم وصول ہو اسے تمام ورثاء کے درمیان ان کے حصص کے بقدر تقسیم کردیا جائے ۔

اگر تمام ورثا ء باہمی رضامندی سے آپس میں سامان تقسیم کرنا چاہیں تو ایسا کرنا بھی درست ہے.

2. اگر کوئی وارث کوئی خاص چیز لینا چاہے تو وہ دوسرے ورثاء کو اس کی قیمت ادا کردے اور اگر تمام ورثاء باہمی رضامندی سے وہ چیز اس کو بغیر قیمت لیے دینا چاہیں تو یہ بھی درست ہے.

یاد رہے اگر وارثوں میں کوئی نابالغ ہو تو اس کی اجازت کا اعتبار نہیں ہے ۔

السنن الكبرى للبيهقي (8 / 316):

عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ” لا يحل مال رجل مسلم لأخيه , إلا ما أعطاه بطيب نفسه ” لفظ حديث التيمي وفي رواية الرقاشي: ” لا يحل مال امرئ , يعني مسلما , إلا بطيب من نفسه “

لا یجوز لأحد أن یتصرف فی ملک الغیر بغیر إذنہ۔ (قواعد الفقہ ، اشرفی دیوبند/۱۱۰)

3. اگر کسی وارث سے ترکہ کی کوئی چیز خراب ہوجائے تو چونکہ وہ ترکہ اس کے پاس امانت تھا اس لیے اگر اس کی غفلت سے یہ نقصان ہوا ہو تو اس کے حصے میں سے اس چیز کی مرمت کی جائے اور اگر اس کی غفلت ظاہر نہ ہو تو اس کی مرمت مرحوم کے ترکے میں سے ہوگی.

و اللہ سبحانه اعلم

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبدالرحیم صاحب

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں