وطن اصلی دو شہروں میں ہونے کی صورت میں قصر نماز کا حکم

سوال: میں کراچی کا رہاٸشی ہوں اور اسلام آباد میں بھی اپنا گھر ہے جہاں کبھی مہینوں میں فیملی کے ساتھ وقت گزارتا ہوں وہاں ضروریات زندگی سب موجود ہے اب اگر میں کسی جگہ کام کے سلسلے میں اسلام آباد جاتا ہوں اور راستے میں میرا رہاٸشی گھر پڑے یا گھر سے آگے جاؤں اور گھر جانے کی نیت نہ ہو تو پوری نماز پڑھوں یا قصر کروں ؟

الجواب باسم ملھم الصواب

اگر آپ کی منزلِ مقصود اسلام آباد والے رہائشی گھر سے بھی سفرِ شرعی کی متعینہ مسافت(سوا ستتر کلومیٹر)کے برابر یا اس سے زیادہ پر ہو تو آپ شرعاً مسافر شمار ہوں گے اور قصر نماز پڑھیں گے۔

اگر منزلِ مقصود شرعی مسافتِ سفر (سوا ستتر کلومیٹر) سے کم ہو یا اسلام آباد میں ہی جائیں تو چونکہ اسلام آباد میں بھی آپ کا رہائشی گھر ہی ہے اس لیے وہاں آپ کو مکمل نماز پڑھنی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات

1۔ ” والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها داراً وتوطن بها مع أهله وولده وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها، وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها، فيخرج الأول من أن يكون وطناً أصلياً حتى لو دخله مسافراً لايتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله لأنه لو لم ينتقل بهم ولكنه استحدث أهلاً في بلدة أخرى، فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما، وخرج يريد أن يتوطن بلدةً أخرى، ثم بدا له أن لايتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدةً غيرها، فمر ببلده الأول، فإنه يصلي أربعاً؛ لأنه لم يتوطن غيره. ( البحر الرائق، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲/ ۱۳٦)

2۔ ’’ ولو انتقل بأہلہ ومتاعہ إلی بلد وبقي لہ دور وعقار في الأول قیل بقي الأول وطنًا لہ ، وإلیہ أشار محمد رحمہ اللّٰہ تعالی ۔ کذا في الزاہدي ‘‘ ۔

(الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۴۲)

3۔ “ثم الوطن الأصلي یجوز أن یکون واحداً أو أکثر من ذلک، بأن کان لہ أھل و دار في بلدتین أو أکثر ولم یکن من نیۃ أھلہ الخروج منھا ، وإن کان ھو ینتقل من أھل إلی أھل في السنۃ ، حتی إنہ لو خرج مسافراً من بلدۃ فیھا أھلہ و دخل في أي بلدۃ من البلاد التي فیھا أھلہ فیصیر

مقیماً من غیر نیۃ الإقامۃ ‘‘۔

(البحر الرائق:۲/۲۳۹)

4۔ اگر کسی شخص کے دو علاقوں میں گھر ہوں اور دونوں علاقوں کے متعلق اس کی یہ نیت ہو کہ وہ اس کے وطن ہیں تو وہ دونوں جگہوں پر مکمل نماز پڑھے گا، اگر چہ دونوں علاقوں کے درمیان مسافت سفر ہو اور اس کی مدت اقامت پندرہ دن سے کم ہو۔

لیکن اگر اس کی نیت صرف ایک علاقے کو وطن بنانے کی ہو تو جس علاقے کے متعلق اس نے وطن بنانے کی نیت نہ کی ہو اگروہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ٹھہرے گا تو قصر نماز پڑھے گا اور اگر پندرہ دن یا اس سے زیادہ کا قیام کا ارادہ ہو تو اتمام کرے گا۔

بہر دو صورت اگر دونوں وطن کے درمیان مسافتِ سفر سے زیادہ سفر ہے (مثلاً: کراچی اور اسلام آباد)، اور درمیان میں چار رکعت والی نماز کا وقت آتاہے تو دورانِ سفر وہ نماز قصر ادا کی جائے گی۔

(فتاوی جامعۃ العلوم الاسلامیہ)

فقط۔ واللہ اعلم بالصواب

۱ ربیع الاول ۱۴۴۳ھ

8 اکتوبر 2021

اپنا تبصرہ بھیجیں