سوال: کیا وطن اصلی دو ہوسکتے ہیں؟
سائلہ ۔بنت علی ، کراچی
فتویٰ نمبر:227
الجواب حامدة و مصلیة ۔
جی ہاں وطن اصلی ایک سے زائد ہو سکتے ہیں ۔اس صورت میں دونوں جگہ قصر نہیں ہوگی ۔
عن عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن بن أبي ذباب عن أبیہ: أن عثمان بن عفان صلی بمنیٰ أربع رکعات فأنکرہ الناس علیہ فقال: یا أیہا الناس إنی تأہلت بمکۃ منذ قدمت، و إني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول:: من تأہل في بلد، فلیقل صلاۃ المقیم۔ (مسند الإمام أحمد بن حنبل ۱؍۶۲ رقم: ۴۴۳)
ویبطل الوطن الأصلي بمثلہ لا لاسفر؛ لأن الشي یبطل بما ہو مثلہ لا بما ہو دونہ فلا یصلح مبطلا لہ … والوطن الأصلي ہو یطن الإنسان في بلدتہ أو بلدۃ أخریٰ اتخذہا دارا و توطن بہا مع أہلہ و ولدہ و لیس من قصدہ الارتحال عنہا بل التعیش بہا و ہذا الوطن یبطل بمثلہ لا غیروہو أن یتوطن في بلدۃ أخریٰ و ینقل الأہل إلیہا، فیخرج الأول من أن یکون وطنا أصلیا حتیلو دخلہ مسافراً لا یتم قیدنا بکونہ انتقل عن الأول بأہلہ۔
===========
بنت مدنی الثانیہ
دارالافتاء صفہ آن لائن کورسز
18 مارچ 2017 ۔
18 جمادی الثانی 1437 ھ