سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کوئی عورت اپنے بچوں کو یہ وصیت کرے کہ میرے کپڑے کسی کو دینا مت خود استعمال کرنا، تو اس کا کیا حکم ہے کیا اولاد کا اس پر عمل ضروری ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
واضح رہے کہ جائز وصیت ( وہ وصیت جو نہ تو ضروری ہو، نہ ہی بہتر ہو اور نہ ہی ناجائز اور مکروہ ہو، یعنی ایسی وصیت کی وجہ سے نہ تو ثواب ملتا ہے اور نہ ہی گناہ ملتا ہے) کو پورا کرنا وارثوں کے ذمے لازم نہیں ہوتا؛ البتہ اگر اس کو پورا کرنے میں کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو تو ایسی وصیت پر عمل کرنا جائز ہے، لیکن اگر اس کی وجہ سے شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم ہو رہی ہو تو اس پر عمل کرنا درست نہیں۔
صورت مسئولہ میں انتقال کے وقت میت کی ملکیت میں جو کچھ تھا وہ سب اس کا ترکہ ہے، ترکے کی تقسیم میں جو کپڑے جس وارث کے حصے میں آئیں، اسے اختیار ہے چاہے تو خود استعمال کرلے، چاہے تو صدقہ کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
1۔ “أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئاً معيناً فهي باطلة، سراجية، وسنحققه”.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار: 6/ 666)
2۔ “ولو أوصى أن يجعل أرضه مسجدًا يجوز بلا خلاف”.
(الفتاوى الهندية: 6/ 97)
فقط-واللہ تعالی اعلم بالصواب
11 ربیع الاول 1443ھ
18 اکتوبر 2021ء