سوال : میراث کا معاملہ ہے بالفرض باپ کے گھر میں اگر کوئی بہن یہ کہہ دے کہ میں نے اپنا حصہ آدھا معاف کیا تو کیا صرف ہاں کہہ دینے سے کیا معاف ہوجاتا ہے کیا اس کے لۓ دستخط کی ضرورت ہوتی ہے ہم نے سنا ہے کہ صرف راضی ہو جانے سے کچھ نہیں ہوتا دستخط ہونا ضروری ہے ورنہ صرف کہہ دینے سے معتبر نہیں ہوتا
اور ایک مفتی صاحب نے یہ بھی بتایا ہے کہ کوئی بہن مان جائے آدھے حصے سے دستبردار ہوجائے تو کافی ہے دستخط کی ضرورت نہیں ۔ آپ ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں شرعی حل بتا دیں نیز یہ کہ والدین حیات نہیں ہیں اور نہ ان کے والدين حيات ہیں صرف بیٹے اور بیٹیاں ہیں ۔
الجواب باسم ملھم الصواب
وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے محض دست بردار ہوجانا یا معاف کردینا کافی نہیں ، البتہ اگر وہ اپنا حصہ کسی معین وارث کو ہدیہ کرنا چاہیں تو شرعا اس کی اجازت ہے ۔
صورت مسئولہ میں اگر بہن کو حصے کی ضرورت نہ ہو اور وہ اپنا حصہ کسی وارث کو ہدیہ کرنا چاہیں تو کرسکتی ہیں۔
==============
حوالہ جات :
1 ۔ ”الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط”. (ردالمحتار : 7/505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)
2 ۔ ”لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَايَبْطُلُ بِالتَّرْك“۔
(الاشباہ والنظائر :ص:309- ط:قدیمی) ۔
3 ۔ ”یملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض، فالقبض شرط لثبوت الملک “۔
(الدرالمختار : کتاب الھبہ ،690/5 )۔
والله أعلم بالصواب۔
17 رجب 1444
8 فروری 2023۔