موجودہ دور میں خلا باز بھی سیاروں کی سیر کر آئے ہیں ۔لیکن ان کی اس سیر کا حضور اقدس ﷺ کے سفر موراج کے ساتھ بال برابر بھی موزانہ نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ چاند کا زمین سے اوسط فاصلہ صرف 226970۔9 میل ہے ۔ جب کہ سورج کا زمین سے فاصلہ نو کروڑ تیس لاکھ میل ہے۔ ہمارے اس نظام شمسی کی وسعت 10 یا 15 ارب میل ہے ۔ نظام شمسی کے علاوہ رات کو نظر آنے والے کروڑ ہا ستارے نظام شمسی سے باہر ہیں ۔ سفر موراج اس سے بھی آگے ہوا۔ ان ستاروں کے زمین سے فاصلہ کا اندازہ اس سے لگائیے کہ روشنی فی سیکنڈ 1 لاکھ 86 ہزار میل کی ردتار سے سفر کرتی ہے ۔ مثلا : بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں اور سوئچ آن کریں تو ایک سیکنڈ میں بلب روشن ہوجائےگا۔ا ن ستاروں میں ایسے ستارے ہیں جن کی روشنی زمین تک 100،200،500اور 1000 سال کے بعد پہنچ سکتی ہے ۔ صرف ہماری کہکشاں کے قطر کا طول ایک طرف سے تقریبا 50 ہزار نوری سال اور دوسری طرف سے لاکھوں نوری سال ہیں ،اندازہ لگائیے کہ یہ کہکشاں کتنی بڑی ہے؟ سفر معراج اس سے بھی آگے ہوا ہے ۔ پھر ہماری کہکشاں کے علاوہ مزید 3 کروڑ سے زائد کہکشائیں دریافت ہوئی ہیں ، ہر ایک میں اربوں ستارے اور کروڑوں نظام رکھنے والے سورج ہیں ۔ بعض کہکشائیں ہم سے 20 کروڑ نوری سال کے عظیم فاصلے پر واقع ہیں۔ ذرا سوچیے ! زمین سے ان کا فاصلہ کتنا دور ہے ؟ سفر معراج اس سے بھی آگے ، ساتوں آسمان ، جنت دوزخ ، پھر کرسی اور پھر عرش تک سیر کی ہے۔ یہ یاد رہے کہ ہر آسمان نچلے آسمان کے مقابلے نہایت معمولی حجم رکھتا ہے ۔بھلا ! سائنس دانوں کی خلانوردی اس عظیم سفر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہے ؟
اس سے حضور ﷺ کے اس معجزے کی عظمت اور اللہ جل شانہ کی بے پایاں طاقت وقدرت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انسانی عقلیں اس مسافت کا تصور بھی مشکل سے کرسکتی ہے جو حضور سید الاولین والاخرین چند گھڑیوں میں طے کر آئے اور خدا کی طاقت وقدرت تو انسانی عقلوں کے بس سے ماہ ورا چیز ہے ۔
اے لوگو! قبل اس کے کہ آنکھیں بند ہونے کے بعد ان حقائق پر یقین کرنا پڑے ، آگے بڑھو اور اسی دنیا میں ان پر ایمان لے آؤ۔ اسی میں تمہاری نجات وفلاح مضمر ہے ۔