والدہ کا اپنی زندگی میں میراث تقسیم کرنا

فتویٰ نمبر:3076

سوال: محترم جناب مفتیان کرام! 

میری امی نے بلڈنگ بناٸی تھی ٩٠ گز پہ، کچھ زیور بیچا کچھ رقم جمع شدہ تھی اور کچھ رقم پاپا نے شامل کی۔امی نے بڑی بہن کی باتوں میں آکر سب کو جاٸداد برابر تقسیم کردی تھی یہ کہہ کر میں نے بناٸی ہے میں سب کو برابر دوں گی۔ 

جاٸداد کے کاغذ بڑے بھاٸی کے پاس تھے امی نے جب کاغذ مانگے تو انہوں نے کہا آپ یہ بلڈنگ مجھے بیچ دیں، امی وہ بلڈنگ open market میں بیچنا چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے انکار کردیا، واضح ہو کہ بڑے بھاٸی اس بلڈنگ میں اسکول چلاتے تھے جو اب تک چل رہا ہے اور اس اسکول سے ملنے والے کراۓ سے کچھ رقم امی کو دیتے تھے گھر کے خرچے کے لیے، جب امی نے بھاٸی کو منع کردیا تو بھاٸی نے امی پہ دباٶ ڈالنے کے لیے کچھ عرصے کے لیے خرچہ دینا بند کردیا جس سے بہت تنگی ہونے لگی۔

بالاخر مجبور ہوکر امی نے وہ بلڈنگ بھاٸی کو فروخت کردی اور بھاٸی نےامی سے ایک کاغذ پر ذبردستی دستخط کروالیےوہ رقم سب کو برابر تقسیم کرنے پر۔

مگر اپنی وفات سے کچھ عرصے پہلے انہوں نے اپنی بیٹی اور بہو کو گواہ بنا کر کہا کہ تم گواہ رہنا مجھ سے ذبردستی دستخط لیے ہیں میں مجبور تھی میرا راشن بند کردیا تھا، میرے مرنے کے بعد تم لوگ اسے آپس میں شریعت کے مطابق تقسیم کرلینا میں خدا سے کہوں گی انہوں نے ذبردستی کی ہے۔

امی کو نظر بھی نہیں آتا تھا ٢٠١٧ میں ان کا انتقال ہوا ہے، براہ مہربانی چند سوالوں کا جواب عنایت فرماٸیے:

١۔ اب جاٸداد شریعت کے حساب سے کس طرح تقسیم ہوگی؟ کیوں کہ امی نے وفات سے پہلے شریعت کی طرف رجوع کرلیا تھا۔

٢۔ امی نے جب ذبردستی دستخط کیے تو بھاٸی نے بلڈنگ کی ویلیو ٨٠ لاکھ لگاٸی تھی اور سب میں ٨ لاکھ کے حساب سے تقسیم کا کہا لیکن ایک بہن کے علاوہ پورے ٨ لاکھ بھاٸی نے کسی کو نہیں دیے، کسی کے قرضے میں کاٹ لیے اور کسی کے قسطوں میں دے دیے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟

٣۔اب اس بلڈنگ کی ویلیو ٢ کڑوڑ ہے تو اب شرعاتقسیم کس ویلیو کے حساب سے ہوگی؟ واضح ہو کہ ٢ بہنوں کا انتقال ٢٠١٤ میں والدہ کی حیات میں ہوگیا تھا؟ 

والسلام

الجواب حامداو مصليا

اولاً اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ جاٸداد وغیرہ کی خرید و فروخت کا معاملہ اگر زبانی طور پر کیاجاۓ اور باٸع(بیچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا) دونوں کی طرف سے ایجاب و قبول ہوجاۓ تو بیع مکمل ہوجاتی ہے اور خریدنے والے کی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے اور قبضہ سے ملکیت تام ہوجاتی ہے چاہے تحریراً کوئی کارواٸی نہ کی گٸ ہو۔

مذکورہ مسٸلہ میں جب آپ کی والدہ نے یہ بلڈنگ بھاٸی کو فروخت کردی تو اب یہ بھاٸی کی ملکیت ہوگٸ اور بھاٸی کا اس پر قبضہ بھی ہے اس لیے والدہ کی وفات کے بعد اب یہ بلڈنگ والدہ کی میراث میں تقسیم نہ ہوگی۔

البتہ یہ بات اپنی جگہ برحق ہے کہ بھاٸی نے جس طرح والدہ کو مجبور کر کے یہ بلڈنگ خریدی ہے اس پر وہ عند اللہ ماخوذ ہوں گے کیوں کہ والدین کو دکھ دینا اور انہیں تکلیف پہنچانا گناہ کبیرہ ہے، بھاٸی پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ پر شرمندگی کے ساتھ سچے دل سےتوبہ کریں اور والدہ نے جس طرح سب میں برابر رقم تقسیم کرنے کو کہا تھا اسی طرح سب کو برابر رقم دے دی جاۓ. پھر وہ سب کی اپنی مرضی ہے کہ اس رقم سے قرض اتاریں یا قسطیں بھریں یا کوٸی اور ضرورت پوری کریں۔

یہ بات بھی واضح ہو کہ انسان اپنی زندگی میں جو کچھ بھی ورثا کو دیتا ہے وہ ھدیہ ہوتا ہے یعنی تحفة دینا اور اس میں شرعی تقسیم (تقسیم میراث کی ترتیب) کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں ہوتا(بشرطیکہ کسی وارث کی حق تلفی نہ کی جاۓ) اس لیے والدہ پر کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا، نیز بھاٸی نے جب بلڈنگ پہ قبضہ کرلیا اور ہر ایک کو ان کے حصص کے بقدر کچھ رقم دی اور کچھ قرضوں اور قسطوں میں کاٹ لیا تو یوں سمجھا جائے گا کہ وہ ھبہ تام ہوگیا، اس طور پر ھبہ کرنے کے بعد وفات سے کچھ عرصہ پہلے اس سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔

اب بھاٸی کی ذمہ داری ہے کہ سب کو ان کی طے شدہ رقم ادا کریں چاہے جس صورت میں بھی ہو. پھر جن کو ان کے حصص کے بقدر ادا کیا جا چکا تو وہ اب بھائی سے دوبارہ مطالبہ نہیں کر سکتے. البتہ جس کو رقم نہیں ملی وہ مطالبہ کرسکتا ہے۔

والدہ کی وفات کے بعد اس بلڈنگ کے علاوہ جو مال ان کی ملکیت میں ہے اس مال کو شرعی طور پر تقسیم کرلیا جاۓ اور جن بہنوں کا انتقال والدہ کی حیات میں ہوچکا ہے ان کا والدہ کی میراث میں حصہ نہیں ہوگا۔

١۔”اذا حصل الایجاب و القبول لزم البیع ولا خیار لواحد منھما الا من عیب او عدم رٶیة“

(العنایة شرح الھدایة: ٣٧٢/٨)

٢۔”اذا حصل الایجاب والقبول لزم البیع“ ( ہدایة، کتاب البیوع:٢٠/٣) 

٣۔” و اما اذا اراد الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ لٸلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ فانہ ھبة فی الاصطلاح الفقہی و والمقصود استعجال لما یکون بعد الموت“

( تکملہ فتح الملھم، کتاب کتاب الھبات:٧٥/٢)

و اللہ سبحانہ اعلم

قمری تاریخ: ١٤۔٤۔١٤٤٠ھ

عیسوی تاریخ: ٢٠١٨۔١٢۔٢٣

تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم

ہمارا فیس بک پیج دیکھیے. 

فیس بک:

https://m.facebook.com/suffah1/

ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں. 

ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک

https://twitter.com/SUFFAHPK

ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:

www.suffahpk.com

ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں:

https://www.youtube.com/channel/UCMq4IbrYcyjwOMAdIJu2g6A

اپنا تبصرہ بھیجیں