“رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” بحیثیت معلم”
“والدین٫منتظمین اور اساتذہ کیلئے ہدایات”
1-” ماحول میں یکسوئی پیدا کریں”
“منتظمین” کو چاہئے کہ وہ طلبہ کو ایسا ماحول فراہم کریں جس میں “خاموشی٫ یکسوئی اور فکر و توجہ کا سماں ہو-
کیونکہ بات سننے اور سمجھنے کےلئے”خاموشی اور یکسوئی”کا ماحول ضروری ہے-ارشاد باری تعالیٰ ہے”واذا قرء القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون”
2-” وژن کا اعادہ کرتے رہیں”
کوئ بات”وژن اور مقصد” کے طور پر طلبہ کے ذہنوں میں منتقل کرنی ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس بات کو مختلف پیرایوں میں موقع کی مناسبت سے دہرایا جاتا رہے- دہرائی کا اس عمل سے ذہن اس چیز کو قبول کرنے لگتا ہے-
3-“تعلیمی عمل کو تناؤ سے بچائیں”
“تعلیم و تعلّم کو اور تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ”طلبہ و اساتذہ کے درمیان ربط اور مناسبت ہو- “انبیاء کرام علیہم السلام” ہمیشہ انسانوں میں بھیجے گئے- اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ”انسانوں کا مربی اور معلم”انسان ہی ہوسکتا ہے جن یا فرشتہ نہیں-
“میرے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین” کے ساتھ شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے-اور خوش مزاجی کا معاملہ فرماتے تھے٫تاکہ “صحابہء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے نزدیک آئیں اور دین کا علم سیکھنے میں انہیں کوئ رکاوٹ نہ ہو-
سخت مزاجی اور تناؤ نزدیک کرنے کے بجائے”انسان کو انسان سے دور کرتے ہیں-
4-“تحریری نصاب تیار کریں”
“لیکچر٫خطاب اور زبانی درس کی اہمیت”اپنی جگہ مسلم٫لیکن لکھے ہوئے “تحریری نصاب”کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا-کسی بھی نظام کو یا نظریے کو اپنی اصلی حالت میں محفوظ رکھنا ہو تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ اسے لکھ کر عام کیا جائے- لکھے ہوئے کو آگے منتقل کرنا اور عرصہء دراز تک اسے محفوظ رکھنا “بنسبت خطاب” کے بہت آسان ہوتا ہے- آسمانی کتابوں اور صحیفوں کو نازل کرنے کا ایک راز یہی ہے-
5-“ذہنی سطح کا خیال رکھیں”
“ابلاغ اور تعلیم کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس میں” مخاطب کی ذہنی سطح کا خیال رکھا جائے-
بچوں کا ذہن”طویل اور مشکل” جملوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے٫ان کے سامنے”آسان اور مختصر جملے بولنے چاہئے٫تاکہ ان کا ذہن آسانی سے بات کو قبول کر سکے-
“ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا”کے صاحبزادے”عمرو بن سلمہ رضی اللّٰہ عنہ”اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ “ایک بار کھانےکے وقت میں”آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا٫ میرا ہاتھ پلیٹ میں چاروں طرف گھوم رہا تھا- “آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مجھے سمجھاتے ہوئے ( انتہائ مختصر جملوں میں) ارشاد فرمایا”بسم اللّٰہ پڑھ کر کھانا کھانا چاہئے٫ سیدھے ہاتھ سے کھانا چاہئے٫اپنے سامنے سے کھانا چاہیے-(صحیح بخاری” کتاب الاطعمہ)
6-” مادری زبان کا استعمال”
“اللّٰہ تعالٰی”نے انسانوں کی” تعلیم و تعلّم” کے لئے انسانوں کو ہی چنا٫اور “انبیاء علیہم السلام” کو تلقین کہ وہ لوگوں کو انہی کی زبان میں تعلیم دیں- آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم” نے بھی “عربی زبان” کے اندر رہتے ہوئے تبلیغی سرگرمیاں انجام دیں- ہماری “بنیادی تعلیم” انگریزی یا عربی ہے جو بچوں کی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے- ہونا تو یہ چاہئے کہ بنیادی تعلیم”مادری زبان میں ہو اس کے بعد ثانوی مرحلے میں انگریزی شروع کی جائے-
“تعلیم مرحلہ وار ہونی چاہئے”
“تعلیم اور تبلیغ” کا فطری اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ چیزیں تدریجاً سکھائ جائیں-ایک دم سے سب چیزیں بتانا ایک تو تعلیم کے لئے مضر ہے٫دوسرا اس سے” تمرین اور پریکٹیکل” میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں-“نبیء کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم” کی تعلیمات اور اسلامی احکام کا ارتقاء ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتا ہے-
(“جاری ہے٫12واں سبق)
حوالہ: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم”کورس-
مرسلہ: خولہ بنت سلیمان-
“الہی گر قبول افتد زہے عزو شرف آمین-“