فتویٰ نمبر:689
سوال: ولیمہ شب زفاف کےبعد کتنے کے اندر کرسکتے ہیں ؟شب زفاف کے تیسرےدن یاچوتھےدن ولیمہ کرنا درست ہے؟
الجواب حامدةومصلیة:
ولیمہ کے لئے اَفضل وقت ر خصتی کے بعد ہے کسی مصلحت سے دو چار دن بعد بھی ولیمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اتنی تاخیر نہ ہو کہ بشاشت نکاح باقی نہ رہے۔
(کذا فی فتاوی رشیدیہ: ۲۵۸)
“عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان ابن عشر سنین مقدم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فکان أمہاتي یواظبني علی خدمۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فخدمتہ عشر سنین۔ وتوفي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأنا ابن عشرین سنۃ، فکنت أعلم الناس بشأن الحجاب حین أنزل، وکان أول ما أنزل في مبتنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بزینب بنت جحش أصبح النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہا عروسًا، فدعا القوم، فأصابوا من الطعام ثم خرجوا، وبقی رہط منہم۔ (صحیح البخاري ۲؍۷۷۶، إعلاء السنن ۱۱؍۱۶ رقم: ۳۰۸۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یجوز أن یولم بعد النکاح أو بعد الرخصۃ، أو بعد أن یبنی بہا، والثالث: ہو الأولیٰ ۔ (بذل المجہود ۴؍۳۴۵ ہندي)
وحدیث أنس في ہٰذا الباب صریح في أنہا أي الولیمۃ بعد الدخول، لقولہ فیہ: أصبح عروسًا بزینب فدعا القوم۔ (إعلاء السنن ۱۱؍۱۶-۱۷ بیروت)
عن حفصۃ بنت سیرین قالت: لما تزوج أبي دعا الصحابۃ سبعۃ أیام۔ (إعلاء السنن ۱۱؍۱۷ رقم: ۳۰۸۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: تزوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صفیۃ، وجعل عتقہا صداقہا، وجعل الولیمۃ ثلاثۃ أیام، أخرجہ أبو یعلی بسند حسن۔ (فتح الباري ۹؍۲۱۰، مسند أبي یعلی ۶؍۳۸۳۴ بحوالہ: إعلاء السنن ۱۱؍۱۷ رقم: ۳۰۸۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
اہلیہ مفتی فیصل صاحب
۱۰/۵/۱۴۳۸ھ
8/2/17