فتویٰ نمبر:3067
سوال: محترم جناب مفتیان کرام!
استاد کا اپنے شاگردوں کو مارنے کا کس حد تک حق ہے اور کس صورت میں؟اگر حدیث یا قرآن کے حوالے کی روشنی میں جواب مل جائے تو بہت مہربانی ہوگی۔ جزاک اللہ
بعض قاری حضرات یہ بات بھی کہتے ہیں کہ بچہ کے جسم کے جس جگہ علم دین سیکھنے کے لیے پٹائی لگے گی، جہنم جسم کے اس حصے کو نہیں جلائے گی۔ اس کا حکم بتائیں۔
والسلام
الجواب حامدا ومصلیا
استاد بچوں کے روحانی والدین ہوتے ہیں، ان کی تربیت و رہنمائی بہترین طریقے سے کرنا ان پہ لازم ہوتا ہے۔ شفقت اور نرمی اساتذہ کا خاصہ ہونا چاہیے۔ بچوں پہ ان کے والدین کی اجازت سے کچھ سختی کرنا اس کی گنجائش ضرور ہے مگر بچوں پہ ان کی ضرورت سے زیادہ یا اتنی سختی جس کے وہ متحمل نہ ہوں کرنا درست نہیں۔
اگر نرمی سے تبنیہ کے باوجود بچہ نہ سمجھے تو بچے کی تربیت کے لیے اس کو تین بار سے زیادہ مارنا جائز نہیں، کسی لکڑی وغیرہ سے قطعی نہیں۔ بچے کو ضرورت سے زیادہ مارنا ظلم شمار ہو گا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ بچے کو ناجائز مارنے اور سخت سزا دینے پہ آخرت میں مواخذہ ہوگا۔
اس لیے چند باتوں کا دھیان رکھا جائے:
۱} بچے کو اس کی غلطی پہ سزا دی جائے، مار ہی ہر مسئلے کا حل نہیں۔
۲} استاد کسی جذبہ انتقام کے تحت بچے کو سزا نہ دے۔
۳} غلطی کے بقدر سزا دی جائے۔
۴{ مدرسہ کے اکابرین اور بچے کے اولیاء کی طرف سے اجازت ہوتو بچے کو ہلکی سزا دی جا سکتی ہے۔
۵} سر اور چہرہ پہ نہ مارے، نشان نہ پڑیں۔
یہ جو مشہور ہے کہ بچے کے جسم کے جس جگہ علم دین سیکھنے کے لیے پٹائی کی جائے، جہنم جسم کے اس حصے کو نہیں جلائے گی ایسا کہنا بالکل غلط ہے. شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں، من گھڑت بات ہے۔
“’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْلَہُمْ۔‘‘
{آل عمران:۱۵۰}
“’إذا ضربھا بغیر حق وجب علیہ التعزیر وإن لم یکن فاحشا۔‘‘
{شامی:۴/۸۹}
“قال في الدرالمختار: وإن وجب ضرب ابن عشر علیھا بید لا بخشبة قولہ (بید) أي ولایجاوز الثلاث، وکذلک المعلم لیس لہ أن یجاوزھا قال علیہ السلام لمرداس المعلم إیاک أن تضرب فوق الثلاث؛ فإنک إذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللّٰہ منك وظاہرہ أنہ لایضرب بالعصا في غیر الصلاة أیضا۔”
{شامی: ۲/۵}
و اللہ سبحانہ اعلم
✍بقلم : بنت ذوالفقار عفی عنھا
قمری تاریخ: ۱۹ جمادی الاولی ۱۴۴۰
عیسوی تاریخ:۲۵ جنوری ۲۰۱۹
تصحیح وتصویب:مفتی انس عبد الرحیم
ہمارا فیس بک پیج دیکھیے.
فیس بک:
https://m.facebook.com/suffah1/
ہمارا ٹوئیٹر اکاؤنٹ جوائن کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں.
ٹوئیٹراکاؤنٹ لنک
ہماری ویب سائٹ سے وابستہ رہنے کے لیے کلک کریں:
ہمارے یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں: