ہم دیکھتے ہیں کہ
1 روزانہ اشتہاری بلیک بورڈز پر اب “رومن اردو” لکھی جا رہی ہے
2 ایس ایم ایس SMSمیں بھی اس طرز تحریر کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ،
3 بہت ساری بلکہ قریب قریب تمام سائٹس نے بھی اپنے شائقین کی اردو نہ لکھ پانے کی مجبوری کی وجہ سے رومن میں اردو تحریر کی اجازت دے دی ہے
4 اسی طرح سوشل میڈیا پر تبصرے اور مراسلے رومن اردو میں بھیجے جا رہے ہیں ۔
یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے اردو زبان جو ہمارے دینی اور اسلامی سرمائے کی امین ہے اس کا اپنے رسم الخط میں جو حسن اور نکھار ہوتا ہے بھلا رومن اردو میں کیسے ہو سکتا ہے
یہ بات اب پائے ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ معاندین اسلام اپنے منصوبوں کو انتہائی منظم انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور غیر محسوس طریقہ پر اپنے حریف پر حملہ آور ہو تے ہیں اور کامیابی کے لیے پرسکون طریقہ پر انتظار کرتے ہیں ۔
ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں
انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر نے کے بعد وزن اور سکّوں کے نظام میں دخل اندازی کر کے سیر کے بجائے کلو گرام رائج کیا اور سکّوں کو اعشاری نظام میں تبدیل کیا ہمارا وزن اور سکّوں کا نظام بائنری (Binary) پر مشتمل تھا جس کو انہوں نے اعشاری میں تبدیل کر کے غریب آدمی کو نقصان پہنچایا اور سرمایہ دار کی حوصلہ افزائی کی ۔
اشیائے خوردو نوش کے چھوٹے اوزان ۔ سیر ۔آدھ سیر۔ پاؤ۔آدھ پاؤاور چھٹانک تھے انہوں نے ادھا سیر (آدھا کلو کے قریب )کے پیکٹ سے نیچے 500گرام کا آدھا 250گرام نہیں کیا بلکہ 200گرام کے پیکٹ بنوائے اس طرح چھٹانک والا پیکٹ 125گرام کے بجائے 100گرام رہ گیا کیوں کہ وزن کے باٹ بھی اسی طرح ہیں لہذا چھوٹے پیکٹ خرید نے والوں کو 50اور 25گرام کا نقصان ہوا قیمت وہی اور وزن کم ۔
جب کہ سیر اور من والے نظام میں زبانی فارمولے بنے ہوئے تھے جیسے جتنے آنوں کی چھٹانک اتنے روپے کا سیر وغیرہ ۔ اسی طرح ہمارے سو سال سے زائد رائج نظام کی پوری جہت کو خراب کر دیا گیا۔
اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ عربی زبان کے فقہی ماخذ میں جو اوزان اور پیمانے مذکور تھے انکی جدید اردو اور دوسری علاقائی زبانوں میں تحقیق شدہ کتابیں منظر عام پر آ چکی تھیں اب نئے اوزان اور پیمانوں کے رائج ہوجانے کے بعد وہ کتابیں اور تحقیقات کالعدم قرار پائیں.
اسی طرح انہوں نے بڑی ہوشیاری سے اردو پر شب خون مارنے کی مہم شروع کر دی ہے
بش نے جس صلیبی جنگ شروع کرنے کا تذکرہ کیا تھا تو یہ کوئی مذاق نہیں تھا
اسلام انکا پہلا ہدف ہے۔
اور اسی👆🏻 وجہ سے یہ چاہتے ہیں کہ اردو میں رومن رسم الخط رواج پاجائے اورہماری نئی نسل اسلاف (بزرگوں ) کی لکھی ہوئی ہزاروں کتابوں کے پڑھنے سے محروم ہوجائے اس طرح اسلامی لٹریچر کا وجود خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔
مزید یہ کہ انٹرنیٹ کے جادو نے کتب بینی کے شوق پر ویسے ہی کاری ضرب لگائی ہے۔
جب مصطفی کمال اتاترک نے ترکی زبان کے عربی رسم الخط کو رومن میں تبدیل کیا تو اسکامقصد بھی نئی نسل کو اسلامی ادب سے محروم کردینا تھا اور دوسری طرف اس نے شعائر اسلامی پر بھی حملہ کیا اور خواتین کے حجاب پر پابندی لگائی ۔ اسکرٹ پہننے کی ترغیب دی ۔ بھلا ایسا آدمی اتاترک (ترکوں کا باپ ) کیسے ہوسکتا ہے۔ مگر یہ دجالی میڈیا اور انگریز کا پروپگنڈا تھا جس نے یہ سب کچھ کر دکھایا
ہر جگہ مسلمانوں کو چوکس رہنا چاہیئے کہ دشمن کس دراڑ سے گھسنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کو وہیں پر روک دینا چاہیئے ۔
ترکی میں رومن رسم الخط کی کامیابی سے پہلے یہود و نصاریٰ نے ملیشیا ء اور انڈونیشیا مسلمانوں کی بڑی آبادی والے ملکوں میں اس تجربے کو آزمایا تھا ۔ اور برسہا برس کے اسلامی ادب کو تباہ کردیا تھا 20 سال کی قلیل مدت میں ملیشیا اور انڈونشیا میں خط جاوی میں لکھی جانے والی اسلامی کتابیں پڑہنے والے نا پید ہوگئے اور اس حوالے سے مسلمان قرآن کریم پڑھنے سے بھی محروم ہونے لگے۔
ملیشیا کی برطانوی تسلط کی آزادی کے بعد ان کے محب وطن اور اسلام پسند حکمرانوں اور دانشورں نے دوبارہ خط جاوی کو زندہ کرنے کے لئے ابتدائی اسکولوں سے تعلیم کے اعلی مدارس تک خطِ جاوی طرز تحریر کی تعلیم شروع کی اور قانون بنادیا کے ہر سڑک کانام انگریزی کے ساتھ خط جاوی میں بھی تحریر کیا جائے گا۔ سرکاری دفاتر میں بھی تمام بورڈ اس خط جاوی سے تحریر کئے گئے۔ اس طرح انھوں نے اپنی زبان اور اس کے طرز تحریر کو زندہ کرلیا
جو قومین اپنی تاریخ تہذیب و تمدن کو نہیں بھولتیں وہ آنے والی مشکلات پر قابو پاکر ترقی کی نئی راہیں ڈھونڈ لیتی ہیں۔
گورے کا یہ حملہ غیر مسلم اقوام پر بھی کار فرما تھا تاکہ ان کی یکجہتی کو تبا کردیا جائے اور Divide and Rule کے مطابق حکومت کی جائے۔ انھوں نے ویتنام ، کمبوڈیا وغیرہ کی زبان کو بھی رومن میں لکھنا شروع کردیا حد یہ ہے کہ چینی (کانجی )رسم کو چھوڑ کر رومن کا لبادہ پہنایا اور اسکا کمال یہ بتایا کہ چینی زبان میں ہر لفظ کی ایک تصویر ہے اس طرح کم از کم چار ہزار الفاظ کا یاد کرنا اور ان کے لکھنے کا طریقہ بہت مشکل ہے حالانکہ اس تصویر کشی (کانجی )والے طریقے سے پورا مشرق بعید ایک یکجہتی رکھتا تھا مگر ویتنام پر فرانس کے تسلط کے دوران انھوں نے ویتنامی زبان کو رومن کردیا تھا۔
یعنی چاپانی ، چینی اور ویتنامی سب کانجی میں ایک ہی طرح لکھتے تھے سب اس کو سمجھ سکتے تھے اگرچہ تلفظ الگ الگ ہونے کی وجہ سے مختلف انداز و آواز میں پڑھتے تھے ۔ مثال کے طور پر پانی کے لیے بنائی ہوئی تصویر کو جاپانی میزو پڑھتا ہے اور چینی شوئی کہتا ہے ۔
لہذا مسلمانان عالم کو رومن رسم الخط سے محتاط رہنا چاہیئے اگر خدانخواستہ یہ رواج پاگیا تو مسلمانوں کو بڑا نقصان ہوگا۔
پاکستان کے صدرمحمد ایوب کے دور میں اخبار جنگ میں رومن رسم الخط کے فروغ کے لئے ایک مہم چلائی گئی تھی اور اسکا ایک نمونہ ہر روز اردوکے ساتھ پیش کیا جاتا تھا اس کے نیچے ایک ٹوکن ہوتا تھا جس کے لئے کہا جاتا تھا کہ آپ اس ٹوکن کو ارسال کریں کہ آپ رومن کے حق میں ہیں یہ اس کے خلاف اس وقت کے مسلمانان پاکستان نے فراست ایمانی سے کام لیتے ہوئے بھرپور اور کامیاب مخالفت کی تھی ۔ اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ نئی نسل اردو رسم الخط سے نابلد نہیں ہے
لہذا تمام احباب سے استدعا ہے کہ اردو کو اس کے رسم الخط کے ساتھ فروغ دیں، اسی میں ہماری بھلائی اور یکجہتی ہے.