جس طرح دینی مدارس میں علومِ اسلامیہ کے نصاب کی تجدید کی آوازیں اٹھتی ہیں، حق بات یہ ہے کہ ہماری یونی ورسٹیاں بھی علومِ اسلامیہ کے نصاب اور یونی ورسٹیوں کے اس نصاب کو پڑھانے والے اساتذہ بھی ان علوم کی بابت ضروری معاصر آگاہی میں بالعموم بے خبری کے ابتلا کا شکار ہیں، الا ما شاء اللہ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم فل / پی ایچ ڈی کی سطح پر ڈگری لینے والا بھی معاصر آگہی کے پہلو سے اسی مقام پر کھڑا ہوتا ہے جہاں ایک مدرسے کا فاضل کھڑا ہوتا ہے۔ معاصر فکر کے بارے میں اگر وہ کچھ آگاہ ہو بھی جاتا ہے تو کچھ ثانوی قسم کے مصادر سے ناقص معلومات اپنی محنت اور مطالعے کے زور پر حاصل کر لیتا ہے۔علومِ اسلامیہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر عربی زبان کے ساتھ انگریزی زبان کی اتنی استعداد ہونی چاہیے کہ کم از کم انگریزی کتابوں کا روانی سے مطالعہ ممکن ہو اور ان سے تحقیق میں بے تکلف استفادے کی استعداد ہو۔ اگر استشراق کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ نہیں کہ مثلا عربی یا اردو میں لکھی گئی کسی ثانوی کتاب سے استفادہ کیا جائے بلکہ اس سطح پر براہ راست مستشرقین کے متون کا مطالعہ کروانا ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ انگریزی میں علمی تحریر (Academic Writing) کی مہارتیں پیدا کرنے کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر انگریزی ادب کے پروفیسروں کی خدمات لینا ضروری ہیں اور ان کے بھی مستقل گھنٹے اسی طرح ہونے چاہییں، جس طرح علومِ اسلامی کے اساتذہ کے ہوتے ہیں۔ آج یونی ورسٹی کا پڑھا ہوا دینی علم کا حامل اگر گولڈ زیہر یا بلاشیر کا نام لیتا ہے تو یہ کوئی آگہی نہیں، کیوں کہ یہ بابے مدتوں پہلے مر کھپ چکے ہیں۔ علومِ اسلامیہ کے حامل کو دینی فکر کی مغرب میں معاصر حرکیات کا اگر اندازہ نہیں تو وہ ڈگری یافتہ ہو کر بھی “گنگوہ شریف کا مولوی عبدالصمد” ہی ہوگا۔ بدقسمتی سے یونی ورسٹیوں میں بھی علومِ اسلامیہ کے شعبے ہمارے ہاں مدرسوں سے کچھ زیادہ آگے نہیں اور ان سے وابستہ اساتذہ میں بھی بہت تھوڑے لوگوں کو اس کا شعور ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود برسوں سے قائم اسی نظم میں ڈھل کر اساتذہ ہوئے ہیں جو “توری پریت میں سدھ بدھ سب بسری، کب تک یہ رہے گی بے خبری” کی تصویر ہے۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے مے خانے
وہاں ساقی نہیں پیدا، یہاں بے ذوق ہے صہبا
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے مے خانے
وہاں ساقی نہیں پیدا، یہاں بے ذوق ہے صہبا