انس عبدالرحیم
جس وقت ماہ نبوت نے دنیائے فانی سے پردہ فرمایا علامہ ابن الصلاح کے بقول اس وقت ایک لاکھ 14 ہزار ایسے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین موجود تھے جنہوں نے حضور اکرم ﷺ سے بالمشافہ علم حاصل کیا اور پھر آگے روایت کیا۔ فتوحات کا دائرہ وسیع ہوا،نئے نئے علاقے خلافت کے زیر نگیں آتے گئے ،حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ان علاقوں میں پھیلتے اور دین کی نشر واشاعت شروع کردی ۔ شمع رسالت مآب ﷺ کے یہ پروانے جہاں چلے جاتے شمع محفل بن جاتے اور لوگ ان پر دیوانہ گرتے ۔ عالم اسلام کا کوئی علاقہ ایسا نہ تھاجہاں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ پہنچے ہوں ، پھر بعض تو مستقل اسی جگہ سکونت پذیر ہوگئے اور بعض اپنے مشن کو پورا کر کے واپس آگئے ۔ مدینہ منورہ ،مکہ مکرمہ ،کوفہ ،بصرہ ، دمشق، حمص، فسطاط، وغیرہ مراکز علوم نبویہ تھے ۔ان شہروں میں قرات ، حفظ قرآن،تفسیر ،روایت،حدیث اور فقہ کی تعلیم کے لیے جامع مسجدوں میں مستقل حلقوں اور مجالس کا انتظام ہوتا تھا ۔ پھر رفتہ رفتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے رہائشی گھروں میں درس وتعلیم کے حلقے قائم ہونے لگے۔
مناسب ہوگا کہ چند مشاہیر اہل علم وفضل صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے حلقہ یائے درس اور ان کے کچھ حالات زیر قرطاس آجائیں ۔
درس گاہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ : ابن ام عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بچپن ہی میں بارگاہ نبوت سے “انک غلام معلم ” کی بشارت مل چکی تھی ۔ آپ ﷺ قرآن ، حدیث ، تفسیر اور قرات کے بڑے عالم تھے۔ علوم قرآن میں آپ رضی اللہ عنہ کے دعوے کے مطابق اس وقت کوئی آپ رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ نہ تھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ 848 احادیث کے راوی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کوفہ معلم بنا کر بھیجا۔ کوفہ میں آپ باقاعدہ قرآن،حدیث اور فقہ کی تعلیم دیتےتھے۔آپ رضی اللہ عنہ کی درس گاہ میں شاگردوں کا بڑا ہجوم رہتا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں علقمہ ، اسود ،مسروق، عبیدہ بن حارث ، قاضی شریح اور ابو وائل نے بہت شہرت پائی ۔ ایک مرتبہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے وسیع حلقہ درس کو دیکھ کر کہا : “ابو عبدالرحمن ! کیا آپ کی طرح آپ کے یہ نوجوان شاگرد بھی باقاعدہ قرات کرسکتے ہیں ؟ فرمایا : “اگر آپ چاہیں تو کسی کو سنانے کا حکم دوں ۔” حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے کہا : ” کیوں نہیں ” حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے پچاس آیتوں کی ایک سورت پڑھ کر سنائی ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر کہا : ” کیا رائے ہے ؟ “انہوں نے نہایت تعریف کی ۔
سفر میں بھی شاگردوں کی ایک جماعت عموما ً ہمراہ ہوتی،تلامذہ کے علاوہ معتقدین کا ایک بڑ ا مجمع بھی ہر وقت حاضر رہتا تھا، فقہ حنفی کی اکثر عمارت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سنگ اساس پر قائم ہے۔
درس گاہ ابن عمر رضی اللہ عنہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حضور اکرم ﷺ کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے ۔اس عرصہ میں آپ رضی اللہ عنہ کا مشغلہ صرف اشاعت علم تھا،۔ اسی لئے آپ رضٰ اللہ عنہ نے کوئی عہدہ اور منصب بھی قبول نہیں کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ 1630 روایات کے راوی ہیں۔ مدینہ میں آپ اک مستقل حلقہ درس تھا۔آپ کے تلامذہ بے شمار ہوئے ۔ جن میں صاحبزادے بلال، حمزہ،زید،سالم، عبداللہ،عبیداللہ، عمر،غلام ” نافع” اور ان کے علاوہ عروہ بن زبیر ،سعید بن المسیب ، قاسم بن محمد بن ابی بکر ، انس بن سیرین ، طاؤس ، عکرمہ، عطاء ، مجاہد ، عبداللہ بن مقسم رحمہم اللہ جیسے مستقبل کےا ساطین علم شامل ہوتے ۔ آپ کے فتاویٰ کی تعداد بہت زیادہ ہے اگر انہیں جمع کیاجائے تو ایک ضخیم جلد تیار ہوسکتی ہے ۔ فقہ مالکی کا تمام تر دارومدار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ پر ہے۔
درس گاہ ابن عباس رضی اللہ عنہ :
مکہ مکرمہ آپ رضی اللہ عنہ کا مستقر تھا ،مکہ میں فقہ کی بنیاد آپ رضی اللہ عنہ ہی نے رکھی ۔ قرآن وحدیث ،تفسیر،فقہ،ادب ،فرائض اور شاعری ان تمام علوم کے آپ جامع تھے۔آپ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی تعداد 2660 ہے۔حلقہ درس بہت وسیع تھاسینکڑوں طلبہ کرام روزانہ آپ رضی اللہ عنہ کے خرمن کامل سے خوشہ چینی کرتے تھے ۔ زندگی کا ہر لمحہ درس وتدریس کے لیے وقف تھا۔ کبھی کوئی شخص آپ کے چشمہ فیض سے ناکام واپس نہ ہوا۔ اس عام فیض کے علاوہ بعض مجلسیں خصوصیت کے ساتھ درس وتدریس اور علمی مذاکروں کے لیے مخصوص تھیں اور نہیں باقاعدہ ہر علم وفن کی جدا جدا تعلیم ہوتی تھی ۔ بعض اوقات آپ رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے لوگوں کا اتنا ازدھام ہوتا کہ آمدروفت میں مشکل پیش آتی ۔
درس کے مستقل حلقوں کے علاوہ کبھی کسی نماز کے بعد تقریر اور خطبہ کے ذریعے بھی آپ رضی اللہ عنہ تعلیم دیتے تھے ۔ حضر کے علاوہ سفر میں بھی چشمہ فیض جاری رہت اتھا ، سفر حج میں آپ کی قیام گاہ طالبان علم کی درس گاہ بن جاتی ۔ خلیفہ مامون الرشید کے پڑپوتے ابوبکر محمد بن موسیٰ نے جو اپنے وقت کے اما م تھے نے آپ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ 20 جلدوں میں جمع کئے تھے ۔
درس گاہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام میں حدیث رسول ﷺ کے سب سے بڑےحافظ ہیں ۔ آپ کی مرویات کی تعداد 5374 ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور تابعین رضی اللہ عنہ ملا کر آپ کی تلامذہ کی تعداد 800 تک پہنچتی ہے ، جن میں بیس 20 حضرات کی کنیت ابو صالح ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس کی یہ خصوصیت تھی کہ اجلہ صحابہ آپ رضی اللہ عنہ کے قوت حافظہ اور روایت حدیث کی توثیق وتصدیﷺ کرتے تھے ۔ عمر بن حزم کے پوتے محمد بن عمار کا بیان ہے کہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا ۔ اس سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کوئی حدیث بیان کرتے اور ان حضرات میں سے کسی کو اس کے بارے میں شک ہوتا تو یہ سب حضرات آپس میں مراجعہ ومباحثہ کر کے اس کو مطمئن کردیتے۔کئی بار ایسا ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کوئی حدیث بیان کی اورا ن حضرات صحابہ نے ان کی تصدیق وتائید کی۔ اس وقت مجھے معلوم ہو اکہ حدیث کے سب سے بڑے عالم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی مادری زبان عربی تھی ،لیکن ساتھ ساتھ فارسی زبان بھی جانتے تھے ، چنانچہ فارسی دان بھی آپ رضی اللہ عنہ سے استفادہ کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے علم وعرفان کی بارش سے خواتین بھی سیر ہوتی تھیں ۔ یہ تعلیم اگر چہ باقاعدہ نہ تھی ، مگر کسی عورت کو خلاف شرع کام کرتے دیکھتے تو اسے فوراً ٹوک دیتے ۔ دامن علم میں جتنی احادیث کا ذخیرہ تھا امت کے اسمنے کھول کھول کر رکھ دیا، لیکن وہ احادیث جو فتنہ سے متعلق تھیں زبان سے نہ نکالیں کہ کہیں یہ جو فتنہ نہ بن جائیں۔
درس گاہ حضرت انس رضی اللہ عنہ :
جس زمانے میں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں مصروف جہاد تھے ، رسول اللہ کا یہ خادم خاص جامع بصرہ میں دنیا سے الگ قال رسول اللہ کا نغمہ خالق خدا کو سنا رہا تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بصرہ میں باقاعدہ حلقہ درس ہوتا تھا ۔اثنائے درس میں کوئی شخص سوال کرتا تو آپ رضی اللہ عنہ اس کا جواب دیتے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اجتہادات اور فتاویٰ کو اگر جمع کیاجائے تو مستقل رسالہ تیار ہوسکتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی تعداد 1286 تک پہنچتی ہے۔ ظاہری اولاد کی طرح اللہ تعالیٰ نے باطنی اور روحانی اولاد بھی بہت عطا فرمائی تھی۔حلقہ درس میں مکہ، مدینہ ، کوفہ ، بصرہ اور شام کے طلبہ شریک ہوتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دائرہ تلمذ سے جو بزرگ ہستیاں امام فن بن کر نکلیں ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں : حسن بصری ، سلیمان تیمی ، ابو قلابہ ،۔اسحاق بن ابی طلحہ ، ابوبکر بن عبداللہ فرنی، قتادۃ ، ثابت بنانی ، حمید الطویل ، ثمامہ بن عبداللہ ، محمد بن سیرین ، یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعۃ الرائے ، سعید بن جبیر ، انس بن سیرین ، ابوعثمان ، جعد ، سلمہ بن وردان رحمہم اللہ وغیرہ
درس گاہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ :
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا شمار مجتہدین صحابہ میں ہوتا ہے ۔ مقام ومرتبے کے اعتبار سے آپ رضی اللہ عنہ کو بلا تکلف حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی صف میں کھڑا کیاجاسکتا ہے ، خلفائے راشدین کے زمانے میں فتوے د اکرتی تھیں، اکابر صحابہ رضی اللہ عنہ پر انہوں نے جو دقیق اعتراضات کیے ہیں تام اعتراضات کو علامہ سیوطی ؒ نے ایک مستقل رسالہ” عین الاصابہ فی ما ستدرکۃ عائشۃ علی الصحابۃ ” میں جمع کردیاہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے 2210 احادیث رضی اللہ عنہم نبویہ مروی ہیں ، بعض علماء کا قول ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سے احکام شریعہ کا چوتھائی حصہ منقول ہے۔ قرآن وحدیث ،علم کلام ۔ علم اسرارالدین ، علم تاریخ ،انساب اور طب ہر ایک میں آپ رضی اللہ عنہ مہارت رکھتی تھیں ۔ طب کے متعلق البتہ وہی معلومات تھیں جو گھر کی عورتوں کو عام طور پر ہوا کرتی ہیں۔ شاعرہ نہیں تھیں لیکن شاعرانہ مذاق بہت عمدہ پایاتھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دامن تربیت میں پرورش پانے والوں کی تعداد 200 کے قریب ہے ، تاہم جن کو زیادہ قرب واختصاص حاصل تھا وہ یہ ہیں ۔ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، قاسم بن محمد ، ابو سلمہ بن عبدالرحمن ، مسروق رحمہم اللہ ۔ عمرۃ صفیہ بنت شیبہ ، عائشہ بنت طلحہ ،معاذ عدویہ رحمہن اللہ۔