تمہید : ” علم تفسیر” میں غوطہ زنی سے پہلے یہ ضروری ہے کہ” علوم قرآن ” پر بھی مختصراً نظردوڑائی جائے۔ ” علوم قرآن” ایک ایسا بحر ناپیداکنارہے کہ علماء کرام اور مفسرین عظام، قرن اول سے آج تک قرآن کے علوم بیان کرتے آرہے ہیں انہوں نے اپنی ساری عمریں اس میں کھپادیں لیکن علوم کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے اندر لعل وجواہر اسی طرح سموئے ہوئے ہیں جیسے پہلے تھا ۔
یوں توقرآن کی مدح سرائی بہت سے فصحاء بلغا،حکماوشعرا نے کی ہے لیکن سب سے بلیغ تر مدح وثنا ا س کی وہ ہے جو خود صاحب رسالت مآب صلوات اللہ وسلامہ علیہ نے کی ہے ۔
ارشاد ہے” یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ۔ا س میں تم سے پہلے قوموں کے سبق آموز واقعات اور تمہارے بعد آنے والوں کے حالات ہیں ۔ یہ تمہارا منشور ودستور ہے ۔ یہ قول فیصل ہے کوئی لغو کلام نہیں۔ جو مغرور سرکش اس سے انحراف کرے گا اللہ اسے توڑ کر رکھ دے گا، جو اس کے سوا کسی اور چیز سے ہدایت کا طالب ہوگا اللہ اسے گمراہ کردے گا ‘ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے ۔ یہی حکمت سے بھرپور ذکر ہے ۔ یہی جاہ و مستقیم ہے یہی وہ چیز ہےجسے پکڑ کر خواہشات، کج راہی سے بچ جاتی ہیں ۔ زبانوں پر اس کا یاد کرنا مشکل نہیں علماء اس سے سیر نہیں ہوسکتے، بار بار پڑھے جانے کے باوجود اس کی چاشنی کم نہیں ہوتی اس کے عجائبات ختم ہونے کے نہیں، یہی وہ قرآن ہے جسے جنات نے جب سنا تو چپ نہ بیٹھ سکے اور یہ کہنے پر مجبور ہوگئے “ا نا سمعنا قرانا عجبا ً یھدی الی الرشد فامنا بہ ۔ الخ
ترجمہ :ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو راہ راست بتلاتا ہے سو ہم اس پر ایمان لےآئے۔( سورۃ الجن 2,3 (
جو قرآن پر عمل کرے وہ ماجور ہے ۔ جو قرآن سے فیصلہ کرے وہ عادل اور منصف ہے اور جو اس کی طرف لوگوں کو دعوت دے وہ جاوہ مستقیم کا راہی ہے “۔ ( ترمذی : 582,583 باب ماجاء فی فضل القرآن )
علوم قرآن سے کیا مراد ہے ؟
علوم قرآن سے مراد وہ ابحاث ہیں جن میں نزول قرآن جمع قرآن، ترتیب وتدوین قرآن،معرفت اسباب نزول ،مکی مدنی کی پہچان ، ناسخ منسوخ محکم متشابہ وغیرہ سے متعلق بحث ہوتی ہے ۔ جس سے مقصدقرآن کو حدیث یعنی آپ ﷺ سے منقول تفسیر صحابہ اورصحابہ وتابعین کے بیان کردہ معانی کی روشنی میں سمجھنا ہے ۔ نیز اس میں مفسرین ، ان کی تفسیروں کےا سلوب کی معرفت ،مفسرین کے خصائص اور شروط تفسیر کا بھی بیان ہوتا ہے ۔
تحریر: مفتی انس عبدالرحیم