علماء امت اور مجتہدین ملت کا جماعت کے بارے میں نظریہ !
1-ظاہریہ اور امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقلدین کا مذہب یہ ہے کہ نماز کے صحیح ہونے کے لیے جماعت شرط ہے، اس کے بغیرنماز نہیں ہوتی۔
2-امام احمد رحمہ اللہ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ جماعت فرض عین ہے،اگرچہ نماز کے صحیح ہونے کی شرط نہیں، امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقلدین کا بھی یہی مذہب ہے۔
3-امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعض مقلدین کا یہ مذہب ہے کہ جماعت فرض کفایہ ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ جو حنفیہ میں سے ایک بڑے درجے کے فقیہ اور محدث ہیں ان کا بھی یہی مذہب ہے۔
4-اکثر محققین حنفیہ کے نزدیک جماعت واجب ہے۔ محقق ابن ہمام، حلبی اور صاحب البحر الرائق وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔
5-بعض حنفیہ کے نزدیک جماعت سنت مؤکدہ ہے، مگر واجب کے حکم میں ہے اور درحقیقت حنفیہ کے ان دونوں قولوں میں کوئی فرق نہیں۔
6-فقہاء لکھتے ہیں اگر کسی شہر میں لوگ جماعت چھوڑدیں اور کہنے کے باوجودبھی نہ مانیں تو ان سے جنگ کرنا جائز ہے۔
7-فقہ کی بعض کتابوں مثلاً: قِنیہ وغیرہ میں ہے کہ بلاعذر جماعت چھوڑنے والے کو سزا دینا امامِ وقت پر واجب ہے اور اس کے پڑوسی اگر اس کے اس فعل قبیح پر کچھ نہ بولیں[ یعنی اس کو اس فعل سے نہ روکیں اور حسب ِ استطاعت نصیحت نہ کریں، بشرطیکہ اس شخص سے کسی تکلیف کا اندیشہ نہ ہوتووہ بھی گنہگار ہوں گے۔
8-اگر مسجد جانے کے لیے اقامت سننے کا انتظار کرے تو گنہگار ہوگا۔ یہ اس لیے کہا کہ اگر اقامت سن کر چلا کریں گے تو ایک دو رکعت یا پوری جماعت چلے جانے کا اندیشہ ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور جماعت کے لیے تیز قدم جانا درست ہے، بشرطیکہ زیادہ تکلیف نہ ہو۔
9-جماعت چھوڑنے والا گنہگار ہے اورا س کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی بشرطیکہ اس نے بلاعذر صرف سستی سے جماعت چھوڑی ہو۔
10-اگر کوئی شخص دینی علوم کے پڑھنے پڑھانے میں دن رات مشغول رہتا ہو اور جماعت میں حاضر نہ ہوتا ہو تو معذور نہیں سمجھا جائے گا اور اس کی گواہی مقبول نہیں ہوگی۔
یہ بحث الگ ہے کہ جماعت مسجد ہی کی ہو یا کہیں بھی جماعت ہوجائے تو کافی ہے؟ ھندیہ اور شامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس جماعت واجب یا سنت مؤکدہ ہے، اب چاہے وہ جماعت مسجد میں ہو، مدرسہ میں ہو ، مصلے میں ہو، گھر میں ہو یا آفس میں، تاہم مسجد میں جماعت کا ثواب کئی درجے زیادہ ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
“(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب…(وأقلها اثنان) واحد مع الإمام ولو مميزا أو ملكاأو جنيا في مسجد أو غيره. (قوله في مسجد أو غيره) قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية. اهـ”.(کتاب الصلوة، باب الامامة، مطلب فی احکام المسجد،552/1، ط:ایچ ایم سعید)