دینی مدارس میں تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے. ایک چیز کا اہتمام طلبہ کو خاص طور پر کرنے کی ضرورت ہے. مدارس میں آٹھ سال کا عرصہ اگر علم اور عمل کی محنت میں یکسوئی سے گزارا جائے تو اس کے ثمرات ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں. اس مدت میں جو طالب علم جتنا منتشر مزاج، پراگندہ حال اور علم و عمل کے مقصد میں یکسو رہنے کے بجائے فضول تعلقات اور دوستیاں پالنے میں مصروف رہتا ہے فراغت کے بعد اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. موجودہ دور میں طالب علم کے لیے یہ آفت پہلے کے مقابلے میں کہیں درجے بڑھ گئی ہے کہ موبائل اس کی جیب میں ہے. اس کے ذریعے کال، میسج، فیس بک اور روابط کی دیگر صورتوں میں مشغول رہنا اس راستے کا نہایت خطرناک رہ زن ہے. تربیت کا یہ عرصہ یکسوئی سے علم و عمل کی محنت پر صرف کر دیا جائے تو مزاج ایک خاص رخ پر ڈھل کر پختہ ہو جاتا ہے ورنہ طالب علمی کی بنی ہوئی مزاج کی آوارگی پھر ساری عمر پیچھا کرتی ہے. موجودہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے نتیجے میں بظاہر لگتا ہے کہ مدارس سے کثرت سے ایسے لوگ نکلیں گے جن کی علمی استعداد افسوس ناک حد تک کمزور ہو گی. اس لیے اگر اپنے اندر نفع بخشی کی صلاحیت پیدا کرنی ہے تو پہلے اپنے آپ کو اصحاب کہف کے مزاج پر استوار کریں. دینی علم اور عربیت کے ساتھ جدید علوم و افکار کے جاننے میں اپنی بساط کی حد تک محنت کریں. کتاب سے تعلق مضبوط کرنے کے ساتھ ذکر و عبادت کا ذوق اپنے اندر خوب پختہ کریں. اللہ کی توفیق شامل حال رہی تو اللہ دین و دنیا دونوں کے لحاظ سے کامیاب فرمائے گا۔
سید متین احمد
اسلام عليكم ورحمۃاللہ و برکاتہ
وعلیکم السلام