فتویٰ نمبر:81
اگر ایک امام ریل میں نماز پڑھا رہا ہو اور دوران نماز ریل کے موڑ کاٹنے کی وجہ سے قبلہ رخ تبدیل ہوجائے تو امام کو کیا کرنا چاہیے ۔
(واضح رہے کہ ریل میں جگہ کافی تنگ ہوتی ہے اور اسی طرح کبھی سامان رکھے ہوئے ہونے کی وجہ سے بھی جگہ تنگ ہوجاتی ہے )
تو صورت مذکورہ میں امام کو رخ تبدیل کرنے کی وجہ سے چند مسائل در پیش ہوتے ہیں ۔
1)جگہ عموماً تنگ ہوگی اور سجدہ نہ کرسکے گا یا پھر چل کر قبلہ رخ پر ہو تو عمل کثیر ہوگا ۔
2) مقتدی امام کے محاورات میں ہوجائیں گے ۔
3)امام پیچھے اور مقتدی آگے ہوجائیں گے ۔
اس مذکورہ صورت میں فقہائے کرام کیا کہتے ہیں ۔
3) کیا ٹرین میں جماعت کرانی افضل ہے اذان واقامت کہہ کر یا انفرادی نماز جماعت کی نماز میں کچھ تنگیاں ہیں اور کچھ فائدے ہیں ۔
1)فائدہ یہ ہے کہ کچھ اور لوگ بھی نماز پڑھ لیتے ہیں اور بے ہمتوں کو نماز پڑھنے کی ہمت ہوتی ہے ۔
2)تنگی یہ کہ کبھی کبھی سامان لیجانے والے یعنی چائے ، کھانے والے اور ٹکٹ چیکر اور پولیس والوں کو نماز کے ختم تک رکنا پڑنا چاہیے ۔
جواب: 1۔ کوئی بھی ایک دعا پڑھ لے ،مسنون دعا پڑھان افضل ہے ۔
فی حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح : ولیسن الدعاء بعد الصلوۃ علی النبی ﷺ۔” (ص 272 قدیمی)
2۔3، غیر مکروہ وقت کے اندر اندر اگر اسٹیشن پر ٹڑین رکنے کا امکا ن ہوتو نماز کو اس وقت تک مؤخر کر کے باجماعت نماز پڑھنا ہی افضل ہے ۔ اگر مکروہ وقت داخل ہونے کا خطرہ ہو یا غیر مکروہ وقت میں ٹرین کے اسٹیشن پر رکنے کا امکان نہ ہو تو ٹرین کے اندر باری دو آدمیوں کی۔سہولت جماعت ہوسکتی ہو تو بھی جماعت ہی بہتر ہے۔ ورنہ انفرادی نماز پڑھنی چاہیے اور قبلہ رخ تبدیل ہونے پر نماز ہی میں گھوم جانا چاہیے ۔ اگر چل کر قبلہ رخ ہونے کی صورت پیدا ہوجائے تو دو دو قدم بڑھا کر معمولی معمولی وقفوں سے چلا جائے، اس طرح عمل کثیر نہیں ہوگا۔
یاد رہے کہ فرض ، واجب اور سنت فجر کے علاوہ اور تمام نوافل ،سنن موکدہ وغیر موکدہ میں گاڑی میں سفر کی صورت میں قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں ۔
فی ال در المختار : ” ویلزم استقبال القبلۃ عند الافتتاح۔وکلم ا دارت : ” وان عجز عنہ ، یمسک عن الصلوۃ ۔۔۔ ولعلہ یمسک مالم یخف خروج الوقت ۔” ( شامیۃ : باب صلوۃ المریض :2/102سعیدیہ)
وفی الشامیۃ : “نعم ! الاولی ان یصلی کذلک ،الا اذا خاف فوت الوقت بالتاخیر ۔” ( شامیۃ : باب الوتر والنوافل :2/41)
وفیہ :” واحترز بالنفل عن الفرض ۔ والواجب بانواعۃ ۔۔وصلاۃ الجنازۃ۔ وسجدۃ تلیت علی الارض ، فلا یجوز علی الدابۃ بلا عذر بالعدم الحرج ۔ ” (ایضاً :2/38)
وفیہ :” ومن العذر :المطر ، وطین یغیب فیہ الوجہ ، وذھاب الرفقاء ، ودابۃ لاترکب الا بعناء، اوبمعین ولو محرما۔” (ایضاً :2/40)
وفیہ :” بشرط ایقا فھا للقبلۃ، ان امکنہ ، والا فبقدر الامکان ، لئلا یختلف بسیرھا المکان ۔” (ایضا :2/46)
وفیہ :” واما فی النفل : فتجوز علی المحمل والعجلۃ مطلقاً۔” (ایضاً :2/42)