رزقِ حلال کمانا عبادت ہے:
اسلام نے انسان کو رزق حلال کے حصول میں کسی خاص ذریعہ معاش کو اختیار کرنے کا پابند نہیں بنایا۔ صرف اس کا پابند بنایا ہے کہ جو بھی پیشہ اختیار کیا جائے وہ حلال اور جائز ہو۔ حلال روزگار کمانے کو اسلام عبادت قرار دیتا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: طلب الحلال واجب علی کل مسلم
(کنز العمال حدیث نمبر(5/4-4020)
حلال کسب معاش اختیار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ایک اورحدیث میں ارشاد ہے:
طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
یعنی فرائض (نماز روزہ زکوٰۃ وغیرہ)کے بعدحلال کمائی حاصل کرنا بھی ایک فریضہ اور عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
تجارت اللہ کا فضل ہے:
فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون (الجمعۃ: ۱۰)
پھر جب جمعہ کی نماز اداکرلی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی، مال) تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح حاصل کرو۔
اس آیت میں کسب معاش کو اللہ کا فضل قرار دیا گیا ہے۔
رزقِ حلال کمانے والا اللہ کے راستے میں ہے:
ایک حدیث میں ارشاد ہے:
جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ور حلال کماتا ہے تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے۔
(الترغیب:2:335رواہ الطبرانی )
تجارت اللہ کو پسند ہے:
ارشاد نبوی ﷺہے: انَّ اللّٰہ یحب المؤمن المحترف۔ اللہ تعالیٰ صنعت وحرفت کا پیشہ اختیار کرنے والے مسلمان کو پسند فرماتے ہیں۔ (الترغیب:2:335رواہ الطبرانی)
انبیاء علیہم السلام نے بھی پیشہ اختیار کیا ہے:
کسب معاش کی اہمیت اور فضیلت اس سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر نبی نے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اختیار کیا ہے ، چنانچہ :
٭…حضرت آدم علیہ السلام زراعت کیا کرتے تھے۔
٭…حضرت ادریس علیہ السلام سلائی کا کام کیا کرتے تھے۔
٭…حضرت داؤد علیہ السلام زرہیں بنایا کرتے تھے۔
تمام انبیا ء کرام نے بکریاں چرائی ہیں۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے بذاتِ خود تجارت کی ہے :
تجارت کو افضل ذریعہ معاش قرار دینے میں سب سے بڑی وجہ آپ علیہ السلام کا بنفس نفیس تجارت فرمانا ہے۔
آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے شراکت پر بھی تجارت فرمائی اور مضاربت پر بھی۔
نبوت ملنے سے قبل حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کے لیے مضاربت کی بنیاد پر کام کیا کرتے تھے اور حضرت عبدا للہ بن سائب کے ساتھ پاٹنر شپ پر کا روبار فرمایا ہے۔
عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ تھے فرماتے ہیں کہ میں زمانہ جاہلیت میں محمدﷺ کا شریک تجارت تھا۔ میں جب مدینہ طیبہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھے پہچانتے ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟
’’کنت شریکی فنعم الشریک لا تداری ولا تماری‘‘ ترجمہ: تم تو میرے بہت اچھے شریک تجارت تھے نہ کسی بات کو ٹالتے اور نہ کسی بات پر جھگڑا کرتے۔
(خصائص کبریٰ 191/1، اسد الغابہ: 231/52))
خلفائے راشدین نے تجارت کی ہے :
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہکپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ ریشم کی تجارت کرتے تھے۔
سید نا عثمان رضی اللہ عنہ عرب کے رئیس التجار تھے آپ سے بڑاتاجر نہ تو قریش میں کوئی تھا اور نہ ہی پورے عرب میں۔ آپ خود فرماتے ہیں:خدا کی قسم میں نے مسلمانوں کے مال سے نہیں کھایا میں نے اپنے ہی مال سے کھایا ہے میں قریش میں سب سے کثیر المال تھا اور ان سب سے زیادہ تجارت میں خوش بخت اور کامیاب تھا۔ (تاریخ الطبری: ذکر عثمان بن عفان: 401/4)
صحابہ کرام y اور تجارت:
اکثر صحابہ کرام نے بھی تجارت کو بطور پیشہ کے اختیار فرمایا ہے مگر ان کی تجارت اور ان کا بیوپار انہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر سکا۔قرآن کریم نے ان کے بارے میںیوں گواہی دی ہے: ( رجال لاتلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ و إقام الصلٰوۃ و إیتاء الزکوٰۃ) ایسے لوگ ہیں کہ ان کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر(اور اس کے احکام کی تعمیل)، نماز قائم کرنے اور زکوۃ ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی۔
ائمہ کرام نے تجارت کی ہے :
امام ابو حنیفہk ریشم فروش تھے ۔ ان کے یہاں ریشم کا بہت بڑا کارخانہ تھا جس میں بہت سے کاریگر اور مزدور کام کرتے تھے ۔ حضرت امام مالک k بھی کپڑے کے بہت بڑے تاجر تھے ۔ اس کے علاوہ متقدمین ائمہ کرام کے ناموں کے ساتھ مختلف پیشوں اور صنعتوں کی نسبتیں ہمیں ملتی ہیں، مثلاً : امام قدوری (ہانڈیوں کی تجارت کرنے والے) امام ابو بکر جصاص (چونے کا کام کرنے والے) امام قفال (لوں کا کاروبار کرنے والے) امام بزار(غلہ فروش) امام زیات (تیل فروش) وغیرہ
اسلام میں کسبِ معاش کے اُصول:
اسلام میں تجارت اور صنعت و حرفت کے فضائل بجا ۔ لیکن یہ تمام فضائل اسی تاجر کے لیے ہیں جو تجارت کو اسلام کے شرعی اصولوں کے مطابق انجام دے ۔ تجارت کے چند اہم شرعی اصول یہ ہیں:
۱۔ غبن اورفراڈ سے بچنا:
ارشاد نبوی ہے : جو مسلمانوں کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔
(یعنی مسلمان کہلانے کے لائق نہیں)
(الترغیب والترہیب: رواہ مسلم)
۲۔ جھوٹ نہ بولنا:
ارشاد نبویﷺ ہے : تاجر لوگ گناہگار اور فاجر ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول : کیاکاروبار کو اللہ نے حلال نہیں کیا؟
فرمایا:کاروبار بالکل حلال ہے لیکن اکثر تاجر جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اپنی چیز کے بارے میں جھوٹی جھوٹی باتیں بیان کرتے ہیں، اس طرح اکثر گناہگار ہوجاتے ہیں (مفہوم حدیث) (الترغیب والترہیب: رواہ احمد باسناد جید والحاکم واللفظ لہ وقال:صحیح الاسناد)
۳۔ جھوٹی قسم نہ کھانا:
اسی طرح ارشاد نبوی ہے:
جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے سے مال تو فروخت ہوجائے گا لیکن ایسی آمدنی ، مال سے برکت ختم کردیتی ہے۔
(الترغیب والترہیب: رواہ احمد)
۴۔ عیب نہ چھپانا:
اسی طرح ارشاد نبوی ہے:
جو مسلمان تاجر کسی عیب دار چیز کو اس کا عیب بتائے بغیر دھوکہ سے بیچ ڈالے تو وہ مسلسل اللہ تعالی کی ناراضگی میں رہتا ہے اور فرشتے برابر اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
(الترغیب والترہیب: رواہ البزار)
۵۔ ناپ تول میں کمی نہ کرنا:
قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: بڑی ہلاکت اور بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے،ان لوگوں کے لیے کہ جب وہ لوگوں سے دام وصول کرتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، لیکن جب ان کو ناپ کرکے یا وزن کرکے دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔(المطففین1:۔3)
ارشاد نبوی ہے: جب بھی کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے کے مرض میں مبتلا ہوتی ہے تو ان پر قحط سالی کا عذاب آتا ہے۔
(الترغیب والترہیب: رواہ ابن ماجہ(
۶۔ ذخیرہ اندوزی سے بچنا:
ارشاد نبوی ہے: (لوگوں کو تنگی میں مبتلادیکھنے کے باوجود ) ذخیرہ اندازی کرنے والاملعون ہے۔
(الترغیب والترہیب: رواہ ابن ماجہ)
۷۔ ایک Contract میں دو معاملے جمع نہ کرنا:
ارشاد نبوی ہے: الصفقتان فی صفقۃ ربا۔
(موارد الظمآن للھیثمی : حدیث نمبر 163)
یعنی ایک عقد (Contract) کے اندر دو معاملات جمع کرنا سود ہے۔
۸۔ معاملے کو کسی غلط شرط کے ساتھ مشروط نہ کرنا:
ارشاد نبوی ﷺ ہے: نھی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بیع و شرط
(مجمع البحرین: ۳؍۳۳۸)
یعنی رسول اللہ ﷺنے بیع کے اندر ناجائز شرط لگانے سے منع فرمایا ہے۔
۹۔ قبضہ سے پہلے چیز نہ بیچنا:
ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’جس شخص نے کھانے کی کوئی چیز خریدی تو وہ اس کو اس وقت تک آگے فروخت نہ کرے جب تک اس پر قبضہ نہ کر لے۔‘‘حضرت عبداللہ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ حکم سب چیزوں کا ہے صرف کھانے کی چیزوں کا نہیں ۔
(بخاری ، کتاب البیوع: ۲؍۲۸۲)
۱۰۔ ملکیت میں آنے سے پہلے چیز نہ بیچنا:
ارشاد نبویﷺ ہے: لاتبع مالیس عند ک (ترمذی: حدیث نمبر:۱۲۳۲)
جو چیز تیری ملکیت میں نہ ہو اس کو فروخت نہ کر!
کسب معاش کے آداب:
اس سے پہلے تجارت کے کچھ وہ اُصول بیان کیے گئے جن کو تجارت اور خریدو فروخت کے معاملات میں مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ اب اس کے بعد تجارت کے کچھ آداب بیان کیے جاتے ہیں، جن سے ہمارا کاروبار ایک مثالی اور قابلِ تقلید تجارت کہلاسکتی ہے۔ ان آداب پر عمل کرنا بہتر اور باعث اجر و ثواب ہے۔
۱۔ صبح سویرے کام میں لگ جانا:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: صبح سویرے رزق کی تلاش میں لگ جایا کرو، اس لیے کہ صبح کاوقت برکت اور کامیابی کا وقت ہے۔
(الترغیب والترہیب رواہ البزار والطبرانی فی الاوسط)
۲۔ ذکر اور دعاؤں کا اہتما م کرنا:
ارشاد نبویﷺ ہے : انسان جب تک ذکر اللہ میں لگا رہتا ہے وہ نماز پڑھنے والا شمار ہوتا ہے، چاہے وہ کھڑا ہو ، یا بیٹھا ہو، بازار میں ہو یا کسی محفل میں۔
(الترغیب والترہیب: رواہ البیہقی)
۳۔ لین دین میں نرمی برتنا:
ارشاد نبویﷺ ہے:
:1 لوگوں کے ساتھ نرمی سے معاملہ کرو تمہارے ساتھ بھی نرمی کا معاملہ کیا جائے گا۔
2: ایک شخص جنت میں صرف اس وجہ سے داخل کردیا گیا کہ وہ جب کسی کو اس کا حق ادا کرتا تونرمی سے کرتا اور جب کسی سے اپنا حق وصول کرتا تو نرمی سے کرتا ۔
۴۔ ملازمین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا:
ارشاد نبوی ﷺ ہے: تمہارے ملازم تمہارے بھائی ہیں ،انہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کیا ہے۔ لہذا جس شخص کا کوئی بھائی اس کے ماتحت ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جس قسم کا کھانا خود کھاتا ہے اس میں سے اس کو بھی کھلائے اور جس قسم کا لباس خود پہنتا ہے اس میں سے اس کو بھی پہنائے اور اس پر کسی ایسے کام کا بوجھ نہ ڈالو جو ان کی برداشت سے زیادہ ہو اور اگر کسی ایسے کام کا بوجھ ڈالو تو اس میں ان کی مدد کرو۔
(صحیح بخاری : کتاب العتق:؍، حدیث نمبر)
تجارت کے مسائل جاننے کی اہمیت:
شریعت کی نگاہ میں جس طرح تجارت سب سے افضل ذریعہ معاش ہے اسی طرح اس راہ کی پیچیدگیاں اور خطرات بھی بہت ہیں۔
اس لیے ایک تاجر کے لیے شریعت کے مسائل جاننا لازم ہے۔
۱… چنانچہ سیّد نا عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو خرید و فروخت کے مسائل نہ جانتا ہو وہ ہمارے بازار میں نہ بیٹھے۔
۱… حضرت امام مالکk نے بھی اس شخص کو بازار سے نکلوا دینے کا حکم فرمایا تھا جو تجارت کے احکام نہ جانتا ہو تاکہ مسائل نہ جاننے کی وجہ سے کہیں لوگوں کو سود نہ کھلائے۔
حرام کی نحوست:
جو شخص تجارت کے مسائل سے واقف نہیں ہوتا وہ بسا اوقات حرام معاملات کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات اس کی آمدنی حرام ٹھہرتی ہے اور حرام کی نحوست تبا ہ کن ہے۔
ارشاد نبوی ﷺہے: جس شخص نے کوئی حرام مال کمایا پھر اس سے کوئی غلام خرید کر آزاد کیا یا اس سے اپنے قرابت داروں کے ساتھ تعاون کیا تو یہ سب قیامت کے دن اس کے یے بوجھ ہوگا۔ (الترغیب و الترہیب:؍،رواہ الطبرانی من حدیث ابی الطفیل)
دعائیں قبول نہ ہونے کی وجہ:
قرآن کریم میں ارشاد ہے: یاأیّھا الرُّسُلُ کُلُوْ مِنَ الطَّیِباتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحاً (المؤمنون)
ترجمہ:اے رسولو! پاکیزہ اور حلال اشیاء کھاؤ اور نیک عمل کرو۔
اس آیت میں حلال کھانے کو نیک عمل کرنے سے پہلے لایا گیا؟
کیونکہ نیک عمل اسی وقت مقبول ہوں گے جب غذا حلال ہوگی ،اگر غذا ہی حلال نہ ہو تو نہ تو نیک عمل مقبول ہوں گے نہ ہی دعائیں قبول ہوں گی۔
حضرت سعد بن ابی وقاصرضی اللہ عنہ نے مستجاب الدعوات ہونے کی دعا چاہی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سعد! اپنا کھاناپینا حلال سے رکھو ، تم مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ خدا کی قسم! انسان اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو اس کی نحوست اتنی ہوتی ہے کہ اس کے چالیس دن کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔
(الترغیب و الترہیب،رواہ الطبرانی فی الصغیر)
آخری زمانہ میں ناجائز معاملات عام ہوجائیں گے :
ارشاد نبوی ﷺ ہے: میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ(دین سے دوری اور مسائل سے ناواقفیت کی وجہ سے) آدمی کو یہ پرواہ نہ ہوگی کہ وہ جو کمارہا ہے وہ حلال ہے یا حرام؟
(الترغیب و الترہیب، رواہ البخاری والنسائی)
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ تجارت نہایت فضیلت اور برکت والا پیشہ ہے لیکن اس کی یہ فضیلتیں اس وقت ہیںجب تجارت اسلام کے بتائے اصولوں کے مطابق کی جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تجارت کے مسائل و احکام سے ہر تاجر واقفیت حاصل کرے اور پھر ان کے مطابق اپنے کاربار کا ڈھانچہ تشکیل دے۔ اللہ جل شانہ عمل کی توفیق عطا فرمائے! آمین
“تجارت : ایک پیشہ ، ایک عبادت” ایک تبصرہ
اپنا تبصرہ بھیجیں
You must be logged in to post a comment.
ماشاءاللہ
بہت ہی زبردست لکھا
اللہ کرے حسن رقم اور زیادہ