توحیدباری تعالی:دوسری قسط
پہلی قسط میں توحید سے متعلق سات دلائل ذکر ہوئے تھے،مزید دلائل ملاحظہ کیجیے!
۸۔جو چیزیں خود زوال پذیر ہو، کسی بڑی ہستی کے مزدور ہوں، وقت مقرر پر آتے ہوں اور وقت مقرر پر ڈوب جاتے ہوں وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں۔ چاند، سورج، ستارے اور سب ہی وقت مقرر پر آتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں، ہمیشہ کے لیے کوئی بھی چیز دنیا میں نہیں ہے ، پھر یہ سب خدا کیسے ہوسکتے ہیں؟جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔
وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ (75) فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ (76) فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ (77) فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَبِّي هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَاقَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ
ترجمہ:اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے والوں میں شامل ہوں۔ چناچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارا دیکھا۔ کہنے لگے : یہ میرا رب ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا : میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ : یہ میرا رب ہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دیتا تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں۔ پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا تو کہا : یہ میرا رب ہے۔ یہ زیادہ بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا : اے میری قوم ! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔
۹۔ لوگوں کے دلوں میں بتوں کا خوف بٹھا دیا گیا ہے، اس لیے وہ ان سے ڈرتے ہیں اورانہیں پوجتے ہیں۔ حالانکہ عبادت کے لیے آسمانی سند اور وحی کی دلیل چاہیے، اور ظاہر ہے کہ بت پرستی کے دلائل انسانوں کے تراشے ہوئے محض وہم و خیال اور رسم و رواج ہیں۔جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا:
وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ:
اور جن چیزوں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، میں ان سے کیسے ڈر سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو اللہ کا شریک ماننے سے نہیں ڈرتے جن کے بارے میں اس نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے ؟ اب اگر تمہارے پاس کوئی علم ہے تو بتاؤ کہ ہم دو فریقوں میں سے کون بےخوف رہنے کا زیادہ مستحق ہے ؟
۱۰۔ دنیا کا کوئی مذہب اﷲ تعالیٰ کے لیے بیوی تجویز نہیں کرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شرک پرست کسی مقدس ہستی کے حوالے سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ خدا کے بیٹے یا بیٹیاں ہیں تو اولاد کے لیے بیوی چاہیے تو وہ کس کو معاذ اﷲ! اﷲ تعالیٰ کی بیوی قرار دینے کی جسارت کریں گے؟ معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی اولاد سرے سے ہے ہی نہیں۔ارشاد باری تعالی ہے:بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔اس کا کوئی بیٹا کہاں ہوسکتا ہے، جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں ؟ اسی نے ہر چیز پیدا کی ہے اور وہ ہر ہر چیز کا پورا پورا علم رکھتا ہے۔
۱۱۔انسا ن اپنے آپ پر غور کرے کہ کیاوہ اپنی ملکیت اور پراپرٹی میں کسی کو شریک کرنا گواراکرتا ہے؟اگر کرتا بھی ہے تو بڑی مشکل اور کراہت سے کرتا ہےاور شریک کرنے کے بعد ہر وقت ڈھرکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ غبن اور دھوکا نہ ہوجائے۔جب انسان اپنی ملکیت میں کسی کو شریک کرنا برداشت نہیں کرتا تو اللہ کی کائنات اور اس کی تخلیق میں کسی اور کواپنی طرف سے کیسے شریک بنالیتا ہے؟
۱۲۔کسی شخص کے کئی باس ہوں ، سب کے سب غصیلے اورکم عقل ہوں، اور مالی لحاظ سے بھی کم درجے کے ہو تو وہ کتنا پریشان رہتا ہے۔کبھی سکون سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا، تھکن سے چور ہوجاتا ہے، اور حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا،اور فکرلگی رہتی ہے کہ کہیں کوئی باس ناراض نہ ہوجائے ۔اس کے مقابلے میں دوسرا وہ شخص ہے جس کا ایک ہی مالک اور آقا ہےجو مال دار اورصاحب صفات ہے،اس کا ہر طرح کا خیال رکھتا ہے ۔ان دو میں سے کون سا شخص زیادہ بہتر ہے؟ ظاہر ہے دوسرا شخص بہت سکون میں ہے۔یہی مثال اللہ اور غیراللہ کی ہے۔انسان غیراللہ اور بتانِ دنیا کو کبھی راضی نہیں رکھ سکتا جبکہ ایک خدا جوقادرمطلق اور کریم ذات ہے،کو بآسانی راضی رکھ سکتا ہے۔
اللہ تعالی کی صفات
حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں :
“وہ زندہ ہے، ہر چیز پر اس کو قدرت ہے،کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں،وہ سب کچھ دیکھتا ہے، سنتا ہے، کلام فرماتا ہے، لیکن اس کا کلام ہم لوگوں کے کلام کی طرح نہیں۔ جو چاہے کرتا ہے، کوئی اس کی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔ وہی عبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ بادشاہ ہے، سب عیبوں سے پاک ہے، وہی اپنے بندوں کو سب آفتوں سے بچاتا ہے،وہی عزت والا ہے، بڑائی والا ہے، ساری چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے، اس کو کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ گناہوں کا بخشنے والا ہے، قوت والاہے، بہت دینے والا ہے، روزی پہنچانے والا ہے، جس کی روزی چاہے تنگ کردے اور جس کی چاہے زیادہ کردے۔ جس کو چاہے پست کردے، جس کو چاہے بلند کردے، جس کو چاہے عزت دے، جس کو چاہے ذلت دے، انصاف والا ہے، بڑے تحمل اور برداشت والا ہے، خدمت اور عبادت کی قدر کرنے والا ہے، دعا کو قبول کرنے والا ہے،بردباری والا ہے۔ وہ سب پر حاکم ہے،اس پر کوئی حاکم نہیں، اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں،وہ سب کا کام بنانے والا ہے، اسی نے سب کو پیدا کیا ہے، وہی قیامت میں پھر پیدا کرے گا، وہی زندہ کرتاہے،وہی مارتا ہے۔ وہ علامات اور صفات سے پہچانا جاتا ہے، اس کی حقیقت کو کوئی نہیں جان سکتا،گناہگاروں کی توبہ قبول کرتا ہے، جو سزا کے قابل ہیں ان کو سزا دیتا ہے، وہی ہدایت دیتا ہے، کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اسی کے حکم سے ہوتا ہے، بغیر اس کے حکم کے ذرہ بھی نہیں ہل سکتا، نہ وہ سوتا ہے، نہ اونگھتا ہے ، وہ تمام عالم کی حفاظت سے تھکتا نہیں۔ وہی ساری کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔ اس کے لیے تمام صفات کمال ثابت ہیں اور وہ ہر نقص و عیب سے پاک ہے۔(تسہیل بہشتی زیور )
یاد رکھیں!اللہ تعالی کی ذات کو پہچاننا ناممکن ہے ،اللہ تعالی کو اس کی صفات سے ہی پہچانا جاسکتا ہے،اسی وجہ سے قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔پھرصفات کی دوقسمیں ہیں:ایک ایجابی دوسری سلبی۔ایجابی کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لیے کوئی صفت ثابت کی جائے جیسےاوپر بیان کی گئی اکثرصفات ایجابی ہیں۔سلبی کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے کسی صفت کی نفی کی جائے؛جیسے:اللہ تعالی محتاج نہیں ہیں۔اللہ تعالی ظالم نہیں ہیں، وغیرہ ۔
کسی شخص کواس کی ایجابی صفات سے زیادہ بہتر طریقے سے پہچاناجاتاہے، سلبی صفات سے پہچان کم ہوتی ہے۔قرآن وسنت میں ایجابی صفات اسی لیے زیادہ بیان ہوئی ہیں،جبکہ فلاسفہ وغیرہ کےپاس کیونکہ آسمانی کتابوں کاعلم نہیں ہوتااس لیے وہ اللہ تعالی کی صفات بیان کرتے ہوئے سلبی صفات بیان کرتے ہیں،ایجابی صفات بیان نہیں کرپاتے،یہی فرق ہے وحی اور عقل کا۔
مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں :
“یہاں قرآن کریم کا ایک عجیب دل آویز نکتہ ہے جس کی طرف سب سے پہلے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے ایک جملہ سے توجہ ہوئی،وہ فرماتے ہیں ،فلاسفہ یونان جب اللہ شانہ کی صفات کا ذکر کرتے (جس کو وہ اپنی فلسفیانہ زبان میں “واجب الوجود “یا “مبدا فیاض” سے یادکیا کرتے تھے)تو وہ ان صفات کی زیادہ تفصیل اور گہرائی میں جاتے تھے،جو ان کے نزدیک اللہ تعالی کے لیے مناسب نہیں ہیں ،یعنی سلبی صفتیں(وہ ایسا نہیں ہے ،اور اس سے مبراء ہے)اور جب اثباتی صفات کا ذکر ہوتا (اللہ ایسا ہے اور اس کی یہ صفت ہے)تو اس میں اجمال سے کام لیتے ،اس طرح فلسفہ میں سلبیات کا بیان مفصل اور ایجابیات کا ذکر اجمالا ملتا ہے،برخلاف قرآن کریم کے اس میں ایجابیات کی تفصیل ہے اور سلبیات کا اختصار ہے،دوسرے آسمانی مذاہب اور انبیاء کرام کی تعلیمات میں یہی مشترک وصف ملے گا کہ اثبات مفصل اور نفی مجمل ہے ۔
اللہ تعالی کی صفات کا اثباتی بیان قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھیے:
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (22) هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (23) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (24)(سورہ حشر)
ترجمہ: وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ چھپی اور کھلی ہر بات کو جاننے والا ہے۔ وہی ہے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے۔ وہ اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو بادشاہ ہے، تقدس کا مالک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، بڑے اقتدار والا ہے، ہر خرابی کی اصلاح کرنے والا ہے، بڑائی کا مالک ہے۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہ اللہ وہی ہے جو پیدا کرنے والا ہے، وجود میں لانے والا ہے صورت بنانے والا ہے، اسی کے سب سے اچھے نام ہیں۔ آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ اس کی تسبیح کرتی ہیں، اور وہی ہے جو اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
اور سلبی صفات کا ذکر پڑھیے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (11)(شوري )
ترجمہ: کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے، اور وہی ہے جو ہر بات سنتا، سب کچھ دیکھتا ہے۔
امام ابن تیمیہ ؒ نے مزید فرمایا کہ سلبی صفات خواہ سیکڑوں کی تعداد میں ہو،ان کا وہ اثر نہیں پڑ سکتا جو ایک اثباتی بیان کا ہوتا ہے،امام ابن تیمیہ ؒ نے بالکل سچی بات کہی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ہماری یہ زندگی اور گذری ہوئی نسلوں کی زندگیاں گواہ ہیں کہ انسانی زندگی اثبات پر قائم ہے،نہ کہ نفی پر،نفی کی نسبت انسانی زندگی اور تمدن میں بہت معمولی ہے۔( اسلام كے تين بنیادی عقائد:ص 22۔23)