سوال: کیا ٹائی پہننا جائز ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
بہت سے اہل علم کے مطابق ٹائی باندھنا عیسائیوں کا شعار اور اُن کی مخصوص علامت تھی، جس کی بنا پر غیر قوموں سے تشبہ کی وجہ سے مسلمانوں کے لیے اُس کے استعمال کو حرام کہا جاتا تھا؛ لیکن آج کل ٹائی لگانا صرف عیسائیوں کی علامت نہیں رہا؛ بلکہ مسلمان بھی بکثرت اُسے استعمال کرنے لگے ہیں؛ اِس لیے اَب ٹائی لگانے کو حرام نہیں کہیں گے البتہ صالحین کے لباس میں داخل بھی نہیں۔ اس لیے پہننا مناسب نہیں۔
دوسری طرف بعض جید علمائے کرام کی تحقیق یہ ہے کہ ٹائی عیسائیوں کا مذہبی شعار یا صلیب کی علامت ہے ہی نہیں۔ ظاہر ہے ان کے مطابق ٹائی پہننا کسی وقت بھی حرام نہیں تھا۔ تاہم صلحا کا لباس نہ ہونے کی وجہ سے احتیاط مناسب ہے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
“ٹائی کی ابتداء نصاریٰ کے مذہبی شعار کے طور پر ہوئی تھی؛ کیونکہ اِس کی ہیئت صلیب سے ملتی جلتی ہوتی ہے؛ لیکن بعد میں اُسے لباس کا ایک جزو قرار دے دیا گیا اور مذہبی شعار کی حیثیت ختم ہوگئی۔ اَب سارے عالم میں انگریزی لباس کے ساتھ اُسے مذہبی تصور کے بغیر پہنا جاتا ہے؛ لہٰذا اُس کو پہننے میں کراہت تو ضرور ہے مگر پہلے جیسی شدید ممانعت باقی نہیں رہی، بہرحال مسلمانوں کو ایسے مکروہ لباس سے احتراز کرنا چاہئے”۔
(مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ۱۹؍۲۸۹ ڈابھیل)
“النهي عنہا من أجل التشبه بالأعاجم فهو لمصلحة دینیة؛ لکن کان ذٰلك شعارهم حینئذ وهم کفار، ثم لما لم یصر الآن یختص بشعارهم، زال ذلك المعنی، فتزول الکراهة”.
(تکملة فتح الملهم: ۴/۹۳ مکتبۃ دار العلوم کراچی)
“فأما هئیة اللباس: فتختلف باختلاف عادۃ کل بلدۃ”.
(فتح الباري / کتاب اللباس ۱۰؍۳۳۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فقط
واللہ تعالی اعلم بالصواب