سوال: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلمائےعظام دریں مسئلہ جو آج کل ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ افزئش ِنسل کا طریقہ رواجاً ہو علاجاً ،اس کی شرعی حیثیت پر روشنی پڑجانے تو بندہ آپ کا ممنون ومشکورہ رہے گا ۔برائے مہربانی اس کی تمام جائز ،ناجائز صورتوں پر رشنی ڈالیے۔
الجواب حامداً ومصلیاً
ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعے افزائش نسل کی سات صورتیں ہیں:
۱ شوہر کا مادۂ تولید انجکشن وغیرہ کے ذریعے اس کی بیوی کے رحم میں مناسب جگہ پہنچا دیا جائے۔
۲ شوہر اور اس کی بیو ی کے تولید ی مادے حاصل کرکے مخصوص مدت تک کسی ٹیوٹ میں ان کی پرورش کی جائے اور پھر اسی بیوی کے رحم میں اسے منتقل کر دیا جائے۔
بے اولاد جوڑوں کے لیے،حصولِ اولاد کی غرض سے یہ دوصورتیں جائز ہیں۔بشرطیکہ بیوی کے رحم میں سے منتقل کرنے کا کام خود شوہر انجام دے اوراگر شوہر اس کے طریقۂ کار سے ناواقف ہو تو لیڈی ڈاکٹر یہ کام انجام دے۔ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے یہ طریقے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد ڈاکٹر سے کروانا جائز نہیں۔(اگرچہ اولاد حلا ل ہی ہوگی)
۳ شوہر اور بیوی کے تولیدی مادے حاصل کیے جائیں اور ان کے آمیزے کو اسی شوہر کی دوسری بیوی کے رحم میں منتقل کردیا جائے۔
اس صورت کو بعض علما نے مطلقاً ناجائز قرار دیا ہے اور بعض علما نے اس شرط کے ساتھ اس کی گنجائش دی ہے کہ پہلی بیوی تولید کی اہل نہ ہو یا وہ زچگی کی متحمل نہ ہو۔اگر پہلی بیوی طبی لحاظ سے تولید کی اہل ہو اور زچگی کی متحمل بھی ہو تو بالاتفاق اس کی اجازت نہیں۔
۴ شوہر اور ایک اجنبی عورت کے مادے باہم ملائے جائیں اور ان کی بار آوری کے بعد اسے شوہر کی بیوی کے رحم منتقل کر دیا جائے۔
۵ شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے نطفے اور بیوی کے تولیدی مادے کی باہم پرورش کی جائے اور ان کے آمیزے کو شوہر کی بیوی کے رحم میں منتقل کر دیاجائے۔
۶ شوہر اور بیوی کے مادوں کی باہم پرورش کرکے اسے کسی تیسری اجنبی عورت کے رحم میں منتقل کردیا جائے۔
۷ کسی اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے مادوں کی باہم پرورش کر کے اسے بیوی کے رحم میں منتقل کر دیا جائے۔
یہ چارصورتین قطعاً ممنوع اور حرام ہیں(ماخذہ:جواہر الفتاوی جلد اول، مسائل بہشتی زیور ۱/۴۹۷،۴۹۶:قاموس الفقہ ۲/۵۲۸۔۵۳۲،شرعی فیصلے:۹۲،۹۳)