آجکل لوگ ٹیلیفون آپریٹر سے ملکر تھوڑے بہت پیسے دیکر بیرون ممالک سے گھنٹوں بات کرتے ہیں اگر یہ لوگ صحیح طریقے سے فون کریں تو ہزاروں کا بل آجائے اسی لئے آپریٹر سے ملکر کم پیسوں میں کام چلا لیتے ہیں، کیا ایسا کرنا اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح ہے؟
الجواب حامداًومصلیاً
ٹیلیفون آپریٹراپنے متعلقہ محکمہ کی طرف سے اپنے صارفین کو خدمات فراہم کرنے کا بحیثیت ملازم پابند ہوتا ہے جسکی تنخواہ اسکو اس کا متعلقہ محکمہ دیتا ہے اور ان خدمات کا عوض وہ اپنے صارف سے بقدرِ خدمت وصول کرتا ہے ۔
لہٰذا اگر کوئی ٹیلیفون آپریٹر کسی صارف کو محکمہ کی مجاز خدمات سے زائد خدمات فراہم کرتا ہے یا اتنی ہی کرتا ہے لیکن محکمہ کو بل ادا نہیں کرواتا تو وہ شخص خود بھی خائن ہے اور وہ صارف بھی شرعاً غاصب ہے اوراگر اس مفت سروس کی وجہ وہ صارف سے اپنی جیب بھرنے کے لئے رقم لیتا ہے تو یہ رشوت ہے جسکا لینا دینا دونوں حرام اور جہنم میں جانے کا ذریعہ ہے ۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو لوگ فون آپریٹر کو پیسے دے کر باہر ملک لمبی لمبی کالیں کرتے ہیں وہ لوگ اور فون آپریٹر سخت گناہ میں مبتلا ہیں کہ ایک طرف رشوت جیسے حرام کام کے مرتکب ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ٹیلیفون کمپنی کے بل میں چوری بھی کر رہے ہیں اور غصب ظلم اور عوامی حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔
لہٰذا جن لوگوں نے ایسا کیا ہے یا کر رہے ہیں انپر لازم ہے کہ اب تک جتنی چوری کی ہے اتنی رقم ٹیلیفون کمپنی کو بلا عوض ادا کریں ۔
لما فی البذل المجہود:
باب فی کراھیۃ الرشوۃ……عن عبداللہ بن عمروؓ قال لعن رسول اللہ ﷺ الراشی ای معطی الرشوۃ والمرتشی ای آخذھا ۔ قال الخطابی
الراشی المعطی والمرتشی الآخذ وانما یلحقہم العقوبۃ معاً اذا استویافی
القصد والارادۃ و رشا المعطی لینال بہ باطلاً و یتوصل بہ الی الظلم واما
اذا اعطی لیتوصل بہ الی الحق او یدفع عن نفسہ ظلماً فانہ غیر داخل فی ھذا الوعید
المتخصص فی الافتاء
بجامعة معھد الخليل الاسلامی
بہادرآباد کراتشی