سوال: ایک عورت کو کسی نے جادو کیا کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے پاس آنے نہ دے اور میاں بیوی کی جدائی ہو اور اس عورت نے کسی عامل کے ذریعے سے وہ جادو ختم کیے اور اس عامل نے اس کو ایک ایسی تعویذ دیاجو دھاگے سے اس نے بنایا تھا پھر اس دھاگے کو بکرے کے خون میں ڈبو کر اسے دیا کہ اسکو سکھا کر گلے میں پہنے اس کے پہننے سے پھر تم پر جادو کسی کی بھی اثر نہیں کریگا ،
تو کیا یہ جائز ہے اسکو پہن کر نماز ادا ہوگی؟ اور اس دھاگے کو شرکیہ کلمات پڑھ کہ دم نہیں کیا
جواب: تعویذ تین شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1. ایک کہ وہ قرآنی آیات یا ادعیہ وغیرہ پہ مشتمل ہو۔ شرکیہ کلمات پر مشتمل نہ ہو۔
2. دوسرا جو بھی اس پہ لکھا ہو وہ سمجھ آ رہا ہو۔ مبہم اور سمجھ میں نہ آنے والے کلمات نہ ہوں۔
3. تیسرا یہ عقیدہ رکھاجائے کہ اس تعویذ کی حیثیت ایک دوا کی سی ہے۔ اصل شفا دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔
سوال میں مذکور صورت میں اگر تینوں شرائط کا خیال رکھا گیا ہو تو ایسا تعویذ جائز ہے۔ البتہ اس کو خون میں آلودہ کرنا ناقابل فہم ہے۔ اس لیے اگر خون کی ماہیت تبدیل نہیں ہوئی تو اسے صاف کرنا ضروری ہے ورنہ نماز نہ ہوگی۔
وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵)
“خون سے تعویذ لکھنا خصوصاً جب کہ اُن میں اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء ہوں یا آیات قرانیہ ہوں ناجائز وحرام ہے؛ کیوں کہ خون نجس ہے اور اِس سے تعویذ لکھنے میں اُن اسماء کی توہین وبے حرمتی لازم آتی ہے۔ البتہ اگر جان جانے کا خطرہ ہو اور دیگر علاج معالجہ سے شفا نہ ملے اور صحت یابی کی اس کے علاوہ کوئی اور ممکنہ صورت نہ رہے تو فقہاء کرام نے اس کی گنجائش دی ہے، تاہم اس رخصت پر عمل کرنے کے بجائے وہ آدمی عزیمت پر عمل کرکے مرجائے تو یہ افضل ہے۔ نیز خون سے تعویذ لکھے بغیر کوئی علاج کی صورت نہ ہونا بغیر دلیل کے قابل قبول نہیں ہوگا۔ ” (مستفاد فتاوی محمودیہ ۲۰/۶۶)