اس سورت کے شروع میں اللہ تعالی نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہئیں،مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کرلے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا ،اسی لئے اس سورت کا نام مؤمنون ہے یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہئیے ،نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے ؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سورہ ٔمؤمنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرمادیں کہ یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف تھے
* سورت کا بنیادی مقصد انسان کواس کی اصلیت کی طرف متوجہ کرکے اس بات پر غور وفکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے او ربالآخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے اس میں انسان کا انجام کیا ہوگا ؟
* اس کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوکہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا انہیں اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا
* مرنے کے بعد اللہ تعالی انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کی نیکیوں او ربرائیوں کا حساب لیں گے او رہر انسان کو اپنے عقیدے او رعمل کے اعتبار سے جزا وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا، اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرکے ثابت کیاگیا ہے۔
* سورت کا بنیادی مقصد انسان کواس کی اصلیت کی طرف متوجہ کرکے اس بات پر غور وفکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے او ربالآخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے اس میں انسان کا انجام کیا ہوگا ؟
* اس کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی علیہ السلام تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوکہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا انہیں اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا
* مرنے کے بعد اللہ تعالی انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کی نیکیوں او ربرائیوں کا حساب لیں گے او رہر انسان کو اپنے عقیدے او رعمل کے اعتبار سے جزا وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا، اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرکے ثابت کیاگیا ہے۔