اس سورت کا مرکزی موضوع مشرکینِ مکہ کی تردید ہے جس میں ان کے اس عقیدے کا خاص طور پر ذکر فرمایاگیا ہے جس کی رو سے وہ فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹیاں کہتے تھے ،نیز وہ اپنے دین کو صحیح قرار دینے کے لئے یہ دلیل دیتے تھے کہ ہم نے اپنے باپ دادؤں کو اسی طریقے پر پایا ہے اس کے جواب میں اول تو یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ قطعی عقائد کے معاملے میں باپ دادؤں کی تقلید بالکل غلط طرزِ عمل ہےاور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دے کر فرمایا گیا ہے کہ اگر باپ دادؤں ہی کے پیچھے چلنا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کیوں نہیں کرتےجنہوں نے شرک سے کھلم کھلا بیزاری کا اعلان فرمایا تھا
* مشرکین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اعتراضات کیا کرتے تھے اس سورت میں ان کا جواب بھی دیاگیا ہے ان کا ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ تعالی کو کوئی پیغمبر بھیجنا ہی تھا تو کسی دولت مند سردار کو اس مقصد کے لئے کیوں نامزد نہیں کیا گیا، اللہ تعالی نے اس سورت میں یہ واضح فرمایا ہے کہ دنیوی مال ودولت کاانسان کے تقدس اور اللہ تعالی کے تقرب سے کوئی تعلق نہیں ہے اللہ تعالی کافروں کو بھی سونا چاندی اور دنیا بھر کی دولت دے سکتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اللہ تعالی کے مقرب ہیں کیونکہ آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اس مال ودولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے
* اس سورت نے یہ بھی واضح فرمایا ہے کہ دنیا میں اللہ تعالی معاشی وسائل کی تقسیم اپنی حکمت کےمطابق ایک خاص انداز سے فرماتے ہیں ،جس کے لئے ایک مستحکم نظام بنایاگیا ہے اسی ذیل میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ بھی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے کیونکہ فرعون کو بھی حضرت موسی علیہ السلام پر یہی اعتراض تھا کہ وہ دنیوی مال ودولت کے اعتبار سے کوئی بڑی حیثیت نہیں رکھتے اور فرعون کے پاس سب کچھ ہے لیکن انجام یہ ہوا کہ فرعون اپنے کفر کی وجہ سے غرق ہوا اور حضرت موسی علیہ السلام غالب آکر رہے نیز اس سورت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا بھی مختصر ذکر فرماکر ان کی صحیح حیثیت واضح فرمائی گئی ہے۔
‘‘زخرف’’ عربی زبان میں سونے کو کہتے ہیں او راس سورت کی آیت نمبر :۳۵ میں اس کا ذکر اس سیاق میں کیاگیا ہے کہ اگر اللہ تعالی چاہے تو سارے کافروں کو سونے ہی سونے سے نہال کردے اسی وجہ سے اس سورت کا نام زخرف ہے۔