یہ بھی مدنی سورت ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہے اپنے مضامین کے اعتبار سے یہ پچھلی سورت یعنی سورۂ انفال کا تکملہ ہے.غالباً اسی لئے عام سورتوں کے برخلاف اس سورت کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ نازل ہوئی نہ لکھی گئی .
اور اس کی تلاوت کا بھی قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص پیچھے سورۂ انفال سے تلاوت کرتا چلا آرہا ہو اسے بسم اللہ پڑھنی چاہئے
اور بعض لوگوں نے اس سورت کے شروع میں بسم اللہ کے بجائے کچھ او رجملے پڑھنے کے لئے بنارکھے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اوپر جو طریقہ لکھا گیا ہے وہی سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے۔
یہ سورت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی عرب کے بہت سے قبائل اس انتظار میں تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفار قریش کی جنگ کا انجام کیا ہوتا ہے جب قریش نے حدیبیہ والا معاہدہ توڑدیا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا او رکسی خاص خونریزی کے بغیر اسے فتح کرلیا اس موقع پر کفار کی کمرٹوٹ چکی تھی البتہ آخری تدبیر کے طور پر قبیلہ ہوازن نے ایک بڑا لشکر مسلمانوں سے مقابلے کے لئے جمع کیا جس سے حنین کی وادی میں آخری بڑی جنگ ہوئی اور شروع میں معمولی ہزیمت کے بعد مسلمانوں کو اس میں بھی فتح ہوئی اس جنگ کے بعض واقعات بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں اب عرب کے جو قبائل قریش کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے ڈرتے تھے یا ان کی جنگوں کے آخری انجام کے منتظر تھے ان کے دل سے اسلام کے خلاف ہر رکاوٹ دور ہوگئی اور وہ جوق در جوق مدینہ منورہ آکر مسلمان ہوئے او راس طرح جزیرۂ عرب کے بیشتر علاقے پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا اس موقع پر اللہ تعالی کی طرف سے جزیرۂ عرب کو اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی مرکز قرار دے دیاگیا اصل منشاء تویہ تھا کہ پورے جزیرۂ عرب میں کوئی بھی غیر مسلم مستقل باشندے کی حیثیت میں باقی نہ رہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جزیرہ ٔعرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں (مؤطا امام مالک،کتاب الجامع ومسند احمد ج:٦ ص:۵۷۲) لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تدریج کا طریقہ اختیار کیاگیا ،سب سے پہلا ہدف یہ مقرر فرمایاگیا کہ جزیرۂ عرب کو بت پرستوں سے خالی کرایا جائے،چنانچہ جو بچے کھچے بت پرست عرب میں رہ گئے تھے اورجنہوں نے بیس سال سے زیادہ مدت تک مسلمانوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایاتھا ان کو اس سورت کے شروع میں مختلف مدتوں کی مہلت دی گئی جس میں اگر وہ اسلام قبول نہ کریں توانہیں جزیرۂ عرب چھوڑنے ورنہ جنگ کا سامنا کرنے کے احکام دئے گئے ہیں،اور مسجد حرام کو بت پرستی کی ہر نشانی سے پاک کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس ہدف کے پورا ہونے کے بعد جزیرہ ٔعرب کی مکمل صفائی کا دوسرا مرحلہ یہود ونصاری کو وہاں سے نکالنے کا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں یہ مرحلہ مکمل نہیں ہوسکا تھا ،لیکن آپ نے اس کی وصیت فرمادی تھی جیسا کہ آیت نمبر:۲۹ کے تحت اس کی وضاحت آنے والی ہے۔
اس سے پہلے روم کے بادشاہ نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر ان پر حملہ کرنے کے لئے ایک بڑی فوج جمع کی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کرکے اس کے مقابلے کے لئے تبوک تک تشریف لے گئے اس سورت کا بہت بڑا حصہ اس مہم کے مخلتف پہلؤوں پر روشنی ڈالتا ہے منافقین کی معاندانہ کاروائیاں مسلسل جاری تھیں اس سورت میں ان کی بد عنوانیوں کو بھی طشت ازبام کیاگیا ہے۔
اس سورت کو سورۂ توبہ بھی کہاجاتا ہے اور سورۂ براءت بھی،براءت اس لئے کہ اس کے شروع میں مشرکین سے براءت اور دستبرداری کا اعلان کیاگیا، اور توبہ اس لئے کہ اس میں بعض ان صحابہ کرام کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے جنہوں نے تبوک کی مہم میں حصہ نہیں لیا تھا ،او ربعد میں اپنی اس غلطی پر توبہ کی تھی