اس سورت کی ابتداء میں پانچ قسمیں کھاکر فرمایا ہے کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیاگیا ہے وہ یقیناً ہونے والی ہے ،یعنی قیامت اور حساب وجزا کا معاملہ ہوکر رہے گا، اس میں تخلف نہیں ہوسکتا ، ا سکے بعد یہ سورت ان نشانیوں کو بیان کرتی ہے جو قیامت کے قریب واقع ہوں گی ، یعنی ستارے بے نور کردئے جائیں گے، آسمان توڑ پھوڑ دیا جائے گا ، پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کرکے اڑادئیے جا ئیں گے، اور رسولوں کو مقررہ وقت پر لایا جائے گا ،قیامت کے دن کواللہ نے یوم الفصل کہا،کیونکہ ا س دن مخلوق کے درمیان عدل وانصاف پر مبنی فیصلہ کیا جائے گا ،قیامت کو یوم الفصل قرار دینے کے بعد اسے جھٹلانے کے بارے میں اللہ فرماتے ہیں یومئذ للمکذبین(اس دن جھٹلانے والوں کے لئے خرابی ہے) یہ آیت اور یہ الفاظ اس سورت میں دس بار آئے ہیں،اس تکرار کا مقصد تخویف اور ترہیب ہے،علاوہ ازیں یہ سورت مجرمین سابقین کا ذکر کرتی ہے جنہیں اللہ تعالی نے تباہ وبرباد کردیا ،اور مخاطبین سےسوال کرتی ہے کہ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟پھر مختلف مراحل سے گزار کر خوبصورت انسان بنادیا ،بعث بعد الموت کے بعض حسی دلائل بھی یہاں مذکور ہیں جن سے ثابت کیاگیا ہے کہ وہ جو زمین کو مردوں اور زندوں کو سمیٹنے والی بناسکتا ہے او رمیٹھے پانی سے سیراب کرسکتا ہے وہ دوبارہ زندہ بھی کرسکتا ہے ،اگلی آیات میں مکذبین اور متقین کے الگ الگ انجام کا بیان ہے ،مکذبین کو بھڑکتی ہوئی آگ کی طرف لےجایا جائے گا ،اور متقین کو ٹھنڈے سائے اور بہتے چشموں کے پاس جگہ دی جائے گی ،آخری آیات میں دوبارہ مجرموں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کھا پی لو اور تھوڑے سے مزے اڑالو!بالآخر تمہارے لئے ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
(خلاصہ قرآن