اس سورت کی ابتداء میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف دعوت،کفار کو ڈرانے او ران کی تکلیفوں پر صبر کرنے کا حکم دیاگیا ہے،یہ سورت مجرموں کو اس دن کے عذاب سے ڈراتی ہے جو ان کے لئے بڑا سخت ثابت ہوگا،اس سورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بدترین دشمن کا تذکرہ ہے جسے ولید بن مغیرہ کہاجاتا ہے ،یہ شخص قرآن سنتا اور پہچانتا بھی تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے؛ لیکن بڑا ہونے کے گھمنڈ میں کفر وانکار کرتا تھا، اور قرآن کو معاذاللہ سحر اور جادو قرار دیتا تھا ،پھر یہ سورت اس جہنم کا اور اس کے دارغوں کا ذکر کرتی ہے جن کا سامنا کفار وفجار کو کرنا پڑے گا، او ران کے دلوں میں نرمی نہیں ہوگی۔یہ سورت ہر شخص کی مسؤلیت اور ذمہ داری کو واضح کرتی ہے کہ ہر شخص سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور وہ اپنے گناہوں کے اسیر ہوں گے، سوائے ان کے کہ جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اسیر نہیں ہوں گے ،وہ قیامت کے دن مجرموں سے سوال کریں گے کہ تمہیں کس چیز نے دوزخ میں ڈالا تو وہ جواب میں چار اسباب بیان کریں گے ،پہلا یہ کہ ہم نمازی نہیں تھے،دوسرا یہ کہ ہم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، تیسرا یہ کہ ہم کج بحثی اور گمراہی کی حمایت میں خوب حصہ لیتے تھے ، اور چوتھا یہ کہ ہم قیامت کا انکار کرتے تھے،اس سورت کے اختتام پر بتلایا گیا ہے کہ یہ قرآن ایک نصیحت ہے جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرسکتا ہے؛ لیکن اس کے لئے اللہ کی مشیت بھی ضروری ہے ۔
(خلاصہ قرآن