یہ سورت بھی مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں کفار مکہ کی مخالفت اپنے شباب پر تھی او رکافروں کے سردارحیلوں بہانوں اور پر تشدد کاروائیوں سے اسلام کی نشر واشاعت کا راستہ روکنے کی کوششیں کررہے تھے ،قرآن کریم کا اثر انگیز اسلوب جب لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا تو وہ ان کی توجہ اس سے ہٹانے کے لئے انہیں قصے کہانیوں اور شعر وشاعری میں الجھا نے کی کوشش کرتے تھے، جس کا تذکرہ اس سورت کے شروع(آیت نمبر:۶) میں کیاگیا ہے
*حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے ،ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑاوزن دیتے تھے ،یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے،قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل وحکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے ،او رانہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا،او راپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا ،اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں
* دوسری طرف مکہ مکرمہ کے مشرکین کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی اولاد کو توحید او رنیک عمل کی نصیحت تو کیا کرتے انہیں شرک پر مجبور کرتے تھے ،او راگر ان کی اولاد میں سے کوئی مسلمان ہوجاتا تو اس پر دباؤ ڈالتے تھے کہ وہ دوبارہ شرک کو اختیار کرلے،اس مناسبت سے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے درمیان( آیات نمبر:۱۴،۱۵ میں) اللہ تعالی نے ایک بار پھر وہ اصول بیان فرمایا ہے جو پیچھے سورۂ عنکبوت (۸:۲۹) میں بھی گزرا ہے کہ والدین کی عزت اور اطاعت اپنی جگہ لیکن اگر وہ اپنی اولاد کو شرک اختیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالیں تو ان کا کہنا ماننا جائز نہیں،اس کے علاوہ یہ سورت توحید کے دلائل اورآخرت کی یاد دہانی کے مؤثر مضامین پر مشتمل ہے ۔
Load/Hide Comments