اس سورت میں بنیادی طور پر مشرکین کو توحید اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے،اور فرمایا گیا ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالی کی قدرت کاملہ او رحکمت بالغہ کی جو نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں،اُن پر سنجیدگی سے غور کرنے سے اول تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جس قادر مطلق نے یہ کائنات پیدا فرمائی ہے اسے اپنی خدائی کا نظام چلانے میں کسی شریک یا مددگار کی کوئی ضرورت نہیں ہے
*اور دوسرے یہ کہ وہ یہ کائنات کسی مقصد کے بغیر فضول پیدا نہیں کرسکتا ،یقیناً اس کا کوئی مقصد ہے،او ر وہ یہ کہ جو لوگ یہاں اس کے احکام کے مطابق نیک زندگی گزاریں ،انہیں انعامات سے نوازا جائے ،او رجو نافرمانی کریں ان کو سزا دی جائے ،جس کے لئے آخرت کی زندگی ضروری ہے
*تیسرے یہ کہ جو ذات کائنات کے اس عظیم الشان کارخانے کو عدم سے وجود میں لے کر آئی ہے، اس کے لئے اس کو ختم کرکے نئے سرے سے آخرت کا عالم پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، جسے ناممکن سمجھ کر ا س کا انکار کیا جائے ،او رجب یہ حقیقتیں مان لی جائیں تو اس سے خود بخود یہ بات ثابت ہوسکتی ہے کہ جب اللہ تعالی کو یہ منظور ہے کہ اس دنیا میں انسان اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارے، توظاہر ہے کہ اپنی مرضی لوگوں کو بتانے کے لئے اس نے رہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور جاری فرمایا ہوگا ،ای سلسلے کا نام رسالت نبوت یا پیغمبری ہے،اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی سلسلے کے آخری نمائندے ہیں اس سورت میں آپ کو یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ اگر کافر لوگ آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؛ بلکہ آپ کا فریضہ صرف اتنا ہے کہ لوگوں تک حق کا پیغام واضح طریقے سے پہنچادیں، آگے ماننا نہ ماننا ان کا کام ہے اور وہی اس کے لئے جواب دہ ہیں۔
*سورت کا نام “فاطر” بالکل پہلی آیت سے لیاگیا ہے، جس کے معنی ہیں پیدا کرنے والا۔ اسی سورت کا دوسرا نام سورۂ “ملائکہ” بھی ہے ،کیونکہ اس کی پہلی آیت میں فرشتوں کا بھی ذکر ہے۔
Load/Hide Comments