یہ سورت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا فرمائیں ،آپ نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں اپنے صحابہ کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے ،جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ قریش کے مشرکین نے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے ،اس خبر کے ملنے پر آپ نے اپنی پیش قدمی روک دی ،اور مکہ مکرمہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، (یہ جگہ آج کل شمیسی کہلاتی ہے) وہاں سے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا ایلچی بناکر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ وہاں کے سرداروں کو بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں، وہ صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں او رعمرہ کرکے پر امن طور پر واپس چلے جائیں گے ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ گئے تو ان کے جانے کے کچھ ہی بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ مکرمہ کے کافروں نے انہیں قتل کردیا ہے ،اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو جمع کرکے ان سے یہ بیعت لی،(یعنی ہاتھ میں ہاتھ لے کر یہ عہد لیا) کہ اگر کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو وہ ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ خزاعہ کے ایک سردار کے ذریعے قریش کے سرداروں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ایک مدت تک جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہیں توآپ ا س کے لئے تیار ہیں، جواب میں مکہ مکرمہ سے کئی ایلچی آئے ،او رآخر کار ایک معاہدہ لکھاگیا ،جس میں محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ طے ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم او رقریش آئندہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ نہیں کریں گے،(سیرت ابن ہشام ۲:۳۱۷ وفتح الباری ۸۔۲۸۳)اسی معاہدے کو صلح حدیبیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے،صحابہ کرام اس موقع پر کافروں کے طرز عمل سے بہت غم وغصے کی حالت میں تھے ،او رکافروں نے صلح کی یہ شرط رکھی تھی کہ اس وقت مسلمان واپس مدینہ منورہ چلے جائیں او راگلے سال آکر عمرہ کریں ،تمام صحابہ احرام باندھ کر آئے تھے ،او رکافروں کی ضد کی وجہ سے احرام کھولنا ا ن کوبہت بھاری معلوم ہورہا تھا، اس کے علاوہ کافروں نے ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسے واپس مکہ مکرمہ بھیجیں،او راگر کوئی شخص مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش کے ذمے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اسے واپس مدینہ منورہ بھیجیں،یہ شرط بھی مسلمانوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھی ،اور ا س کی وجہ سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بجائے ان کافروں سے ابھی ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجائے،لیکن اللہ تعالی کو یہ منظور تھا کہ اسی صلح کے نتیجے میں آخر کار قریش کا اقتدار ختم ہو ،ا س لئے اللہ تعالی کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرائط منظور کرلیں،صحابہ کرام اس وقت جہاد کے جوش سے سرشار تھے او رموت پر بیعت کرچکے تھے ؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے آگے انہوں نے سر جھکادیا او رصلح پر راضی ہوکر واپس مدینہ منورہ چلے گئے ،او راگلے سال عمرہ کیا، ا س کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک واقعہ تویہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) تھا ،مسلمان ہوکر مدینہ منورہ آئے، اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے مطابق انہیں واپس بھیج دیا، انہوں نے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے ایک درمیانی جگہ پڑاؤ ڈال کر قریش کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی، کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پابند نہیں تھے ،اس چھاپہ مار جنگ سے قریش اتنے پریشان ہوئے کہ خود انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ اب ہم وہ شرط واپس لیتے ہیں جس کی رو سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو واپس بھیجنا ضروری قرار دیاگیا تھا، قریش نے کہا کہ اب جو کوئی مسلمان ہوکر آئے تو آپ اسے مدینہ منورہ ہی میں رکھیں ،اور ابو بصیر او ران کے ساتھیوں کو بھی اپنے پاس بلالیں ،چنانچہ آپ نے انہیں مدینہ منورہ بلالیا، دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قریش کے کافروں نے دوسال کےاندر اندر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پیغام بھیجا کہ یا تو وہ اس کی تلافی کریں یا معاہدہ ختم کریں ،قریش نے اس وقت غرور میں آکر کوئی بات نہ مانی، جس کی وجہ سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پیغام بھیج دیا کہ اب ہمارا آپ کامعاہدہ ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد آپ نے ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزار صحابہ کرا م کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی فرمائی، اس وقت قریش کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص خونریزی کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، اور قریش کے لوگوں نے شہر آپ کے حوالے کردیا۔
سورۂ فتح میں صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کا حوالہ دیاگیا ہے اور صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے ہر مرحلے پر بڑی بہادری سرفروشی اوراطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا،دوسری طرف منافقین کی بد اعمالیوں او ران کے بُرے انجام کا بھی ذکر فرمایاگیا ہے